Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ


Join the forum, it's quick and easy

Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ

Rashid Ali Parchaway

Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

Jamal Abad Michni Parchaway.

Keywords

Affiliates


free forum

Forumotion on Facebook Forumotion on Twitter Forumotion on YouTube Forumotion on Google+


    دو منظر / اسلام آباد کے دھرنے، شمالی وزیرستان کے متاثرین

    Munsab
    Munsab


    Posts : 18
    Join date : 11.10.2014
    Age : 43
    Location : ورسک پشاور

     دو منظر / اسلام آباد کے دھرنے، شمالی وزیرستان کے متاثرین Empty دو منظر / اسلام آباد کے دھرنے، شمالی وزیرستان کے متاثرین

    Post by Munsab Sat Oct 11, 2014 6:17 am


    ’دوستوضسکی‘‘ کا شمار دنیا کے عظیم ترین کہانی کاروں میں کیا جاتا ہے۔ اس کی کتابیں اب تک 72 زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ اس کا ایک ناول ’’Crime and Punishment‘‘ (جرم و سزا) پاکستان کی موجودہ دھرنوں والی صورت حال کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ ’’دوستو ضسکی‘‘ ایک عجیب و غریب وباء کا ذکر کرتا ہے۔ حیرت انگیز حد تک اثر رکھنے والے جرثومے لوگوں کے جسموں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ایک ہی ہلے میں لوگ عقل و شعور ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ ناقابل بیان قسم کا ایک پاگل پن ہر کسی پر سوار ہو جاتا ہے۔ ہر کوئی خود کو دنیا کا سب سے زیادہ ذہین شخص مان لیتا ہے۔ اپنے آپ کو سچا اور باقی سب کو جھوٹا قرار دے دیتا ہے۔ گائوں، شہر، قصبے اور صوبے سب اس وباء کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ اس بیماری کا کوئی مریض دوسرے کی رائے سننے کا روا دار نہیں ہوتا۔ ہر کوئی دوسرے کو گمراہ خیال کر کے چھاتی پیٹتا، روتا اور دہائی دیتا ہے۔ سچ جھوٹ کی تفریق ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ کوئی نہیں جانتا جرم کس کا ہے؟مجرم کون ہے؟ فرد جرم کس پر ہو گی؟ سزا اور جزا کیا قرار پائے گی؟۔ اس سریع الاثر بیماری کے شکار لوگ گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے پر تلواریں سونت لیتے ہیں۔ سنگینوں، چھروں بلموں، برچھیوں اور آ ہنی ڈنڈوں سے باہم حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ لوگ اپنے کام دھندے چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ گروہوں اور مجموں کی صورت شہروں کا گھیرائو کر لیتے ہیں۔
    دنوں، ہفتوں محاصرہ کیے رکھتے ہیں۔ کاروبارِ مملکت پر جمود طاری ہو جاتا ہے۔ حکومت اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔ ہر ایک سمت بلوائیوں کے لشکر دکھائی دیتے ہیں۔ دکاندار، کاشتکار، مل مزدور، دفتری بابو، استاد، طبیب سب کے پاس اپنا ایک نظریہ زندگی ہوتا ہے جو وہ دوسرے پر ہوبہو لاگو کرنے کی کی قسم کھا لیتا ہے۔ ہر کسی کو لگتا ہے کہ ہر آسمان تلے جو جو مسائل ہیں ان کا حل صرف اور صرف اسی کے پاس ہے۔ جو ذرا برابر بھی اس سے اختلاف کرتا ہے وہ گردن زدنی قرار پا جاتا ہے۔ ہر کوئی اپنی بیماری بھول کر دوسرے کو مکمل صحت یاب کرنا اپنا اہم ترین منشور حیات مان لیتا ہے۔ ہرکسی کے ہاتھ میں ایک بڑا سا ڈنڈا ہے جس پر عقل کا ایک بڑا پھریرا گدھ کے پروں کی طرح سایہ فگن ہوتا ہے۔ لوگ اپنے جھنڈے کو دوسروں سے اونچا رکھنے کے لیے دن رات کھڑے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے پنجے شل ہو جاتے ہیں۔ کچھ تندرست لوگ انہیں درست راستوں کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، ان کو فی الفور زنخا اور نامرد ہونے کا اعزاز تفویض کر دیا جاتا ہے۔ ’’سیسہ پلائی دیوار‘‘ اور ’’بیڑا اٹھا لینے‘‘ جیسے الفاظ رال کی طرح ہر کسی کی ٹھوڑی سے بہنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اشتہار باز مقرر کھوکھلے فقروں اور یرقانی تقریروں سے لوگوں کے شعور کی نسیں بندکر دیتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے پر الزامات کی خاک ڈالنا شروع کردیتے ہیں۔ گرد و غبار اس درجہ بڑھ جاتا ہے کہ دن اور رات میں تفریق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ دن کو رات اور رات کو دن قرار دینا شروع کر دیتے ہیں۔ جونہیں مانتا اس کو فاترالعقل ہونے کا خطاب دے دیا جاتاہے۔ ہرکوئی دوسرے کو الزام دیتا ہے۔ لوگ باہم لڑتے ہیں۔ یوں ملک کی اکانومی بیٹھ جاتی ہے۔ وباء کے خاتمے تک ناقابل تلافی نقصان ہوچکا ہوتا ہے۔

    ٭ ہم لوگ ملکی بے حسی کی شدید وبائوں کی زد میں ہیں۔ ہمارے لیڈر وہ کور چشم ہیں جو سنگین ترین مسائل کا ادراک کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔ ٭ متاثرین کی حالت زار دیکھنے اور ان کے دُکھڑے سننے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارے ملک میں حکمران تو ہوتے ہیں حکمرانی نہیں۔ ٭ لانگ مارچ اور دھرنوں کے غبار میں ہم بھول گئے کہ 10 لاکھ سے زائد متاثرین ہجرت کر کے شمالی وزیرستان سے ہمارے ہاں آئے ہوئے ہیں۔ ٭
    پاکستان اگست کے مہینے میں ایسی ہی شدید ترین وباء کا شکار رہاہے۔ اسلام آباد ایک قلعے کامنظر پیش کرتا ہے۔ اس کا رابطہ ملک کے دوسرے شہروں اور بیرونی ملکوں سے کٹ کر رہ گیا۔ ملک کی اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کا رحجان رہا۔ ڈالر کی قیمت تیزی سے بڑھنے لگی۔ روپیہ کی بتدریج سکڑنے لگا۔ 12 دنوں میں ملک کو 490 ارب کا نقصان ہو گیا۔ بیرونی سرمایہ کاری کو بریکیں لگ گئیں۔ چین جیسے دوست ملک نے اس انتشار پر سخت تشویش ظاہر کی۔ ترقیاتی کاموں کی رفتار تقریباً ختم ہو کر رہ گئی۔ اکیسویں صدی کے ان برسوں میں اگر ہم ملک کی معاشی صورت حال دیکھیں تو یہ دن بدن گرے جارہی ہے۔ پچھلے 12 سالوں کے اکنامک سروے بتاتے ہیں کہ یکم جولائی 2001ء سے 30 جون 2014ء تک ہمارا مجموعی بجٹ خسارہ 10200 ارب روپے جارہا ہے۔ ان برسوں میں تجارتی خسارہ 166 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ہمارے بیرونی قرضوں کی لاگت 4113 ارب سے بڑھ کر اب 17613 ارب روپے تک جاپہنچی ہے یعنی ان 13 سالوں میں اس میں 13500 ارب کا اضافہ ہوگیا ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں نے ان برسوں میں 89 ارب ڈالر ملک بھجوائے۔ پچھلے مالی سال میں ہمیں اس مد میں 15 ارب ڈالرز وصول ہوئے۔ ہم ایکسپورٹ سے 25 ارب ڈالرزکا زرمبادلہ کما رہے ہیں۔ ہمارا ملکی زرمبادلہ 14.5 ارب ڈالرز اور مجموعی تجارتی حجم 65 ارب ڈالرز ہے۔ ملکی ریونیو 2 کھرب روپے اور گروتھ ریٹ 5 فیصد سالانہ ہے۔ یہ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بہت آہستہ ہے۔ فضل و کرم کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمیں قدرت نے 22 ارب پائونڈ کی معدنیات اور 13 ملین اونس کے سونے کے ذخائرسے نواز رکھا ہے۔ ان کی مجموعی مالیت 500 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔ قدرتی گیس میں خدا نے ہمیں 32 ارب کے ذخیرے 185 ارب ٹن ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا نہری آبپاشی کا نظام رکھنے کے باوجود ہم زراعت کے شعبے میں ہر دہائی نیچے پھسلتے جار ہے ہیں۔ ہماری آبادی کا 60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہونے کے باوجود ہم بے روز گاری میں نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔ ہم 1300 ڈالرز فی کس آمدنی کا ملک ہیں۔ یعنی کاغذات میں ہر پاکستانی 108 ڈالر کما رہا ہے، جبکہ درحقیت 12 کروڑ 70 لاکھ افراد ایک یا 2 ڈالر روزانہ سے بھی کم کے حق دار قرار پار ہے ہیں۔
    لانگ مارچ اور دھرنوں کے غبار میں ہم بھول گئے کہ 10 لاکھ سے زائد متاثرین ہجرت کر کے شمالی وزیرستان سے ہمارے ہاں آئے ہوئے ہیں۔ 15 لاکھ سے زائد ان کے مال مویشی مرچکے ہیں۔ بنوں، ٹانک، لکی مروت اور ڈیراسماعیل خان میں یہ لوگ بکھرے پڑے ہیں۔ زیادہ تر اسکولوں، کالجوں اور سرکاری عمارتوں میں سر چھپا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے کچھ امداد دے کر اپنی ذمہ داری سے فراغت پالی ہے۔ میڈیا اور اخبارات نے اپنی تمام تر توجہ ’’نئے پاکستان‘‘ پر مرکوز کیے رکھی۔ ہم سمجھنے لگے کہ پرانے پاکستان کے سارے مسئلے مسائل مکمل طور پر ختم ہوگئے ہیں۔ میںنے ان مہاجرین کے کیمپوں تک سفر کیا۔ لوگوں سے ان کے شب و روز کا احوال پوچھا۔ متاثرین کے جواب نہایت درجہ دل فگار تھے۔ ان میں زیادہ کو غذا کے حصول کے لیے شدید تکلیف سہنا پڑ رہی ہے۔ خوراک کی وافر فراوانی ان لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بیشتر لوگ کثیر الاعیال ہیں۔ ان کے لیے اپنے کنبوں کو پالنا دشوار ہوتا جارہا ہے۔
    مہاجر کیمپوں کے اطراف مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ یہ مہاجرین نہایت درجہ دین دار ہیں۔ ان کے ہاں پردے کا خصوصی خیال رکھا جاتاہے۔ کیمپوں میں انہیں بے پردگی کے عذاب کا سامنا ہے۔ بجلی جیسی سہولت کی عدم دستیابی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ لوگوں کو غسل اور وضو کے لیے بھی پانی کا نہ ملنا سوہان روح بنا ہوا ہے۔ ہنگامی حالات میں گھروں سے ہجرت کرنے کے باعث ان کے پاس ملبوسات کی کمی ہے۔ زیادہ تر لوگ ایک دو جوڑے کپڑوں کے لا پائے ہیں۔ صفائی ستھرائی کا خاطر خواہ انتظام نہ ہونے کی بنا پر ان کیمپوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ سب سے بُری صورت حال بچوں اور بوڑھوں کی ہے۔ بچے بیماریوں کا شکار ہو کر علاج معالجے کی ابتری کی وجہ سے زندگی کی طرف واپس نہیں لوٹ پاتے۔ پاکستان میں ہر روز 1184 بچے غربت، غذائی قلت اورقابل علاج بیماریوں کا شکار ہوکر وفات پا رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر بچے ان مہاجر کیمپوں اور افلاس کے ڈھیروں پہ آباد کچی بستیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
    یو این او نے حال ہی میں 91 ملکوں میں ایک سروے کیا ہے۔ پاکستان بزرگ شہریوں کے لیے بدترین حالات کی بنا پر تیسرے نمبر پر آیا ہے۔ ہماری 6.5 فیصد آبادی 60 سال سے زیادہ کی ہے۔ ان کے لیے ادویہ، علاج، مناسب غذا نہ ہونے کی بنا پر اموات

      Current date/time is Thu May 02, 2024 2:03 am