Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ


Join the forum, it's quick and easy

Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ

Rashid Ali Parchaway

Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

Jamal Abad Michni Parchaway.

Keywords

Affiliates


free forum

Forumotion on Facebook Forumotion on Twitter Forumotion on YouTube Forumotion on Google+


    بھٹو اور ضیاء

    Admin
    Admin
    Admin
    Admin


    Posts : 527
    Join date : 09.10.2014

    بھٹو اور ضیاء Empty بھٹو اور ضیاء

    Post by Admin Mon Mar 23, 2015 10:25 am

    کل 17 اگست تھی۔ سابق صدرِ پاکستان جنرل ضیاء اُلحق کی 26 ویں برسی۔ جنرل صاحب کے صاحبزادے ’’مسلم لیگ ضیائ‘‘ کے سربراہ جناب اعجاز اُلحق اور مرحوم کے عقیدت مندوں کے سِوا کسی نے بھی انہیں یاد نہیں کِیا۔ اُن لوگوں نے بھی جِن پر جنرل ضیاء اُلحق کے بہت زیادہ احسانات تھے۔ جِن میں وزیرِاعظم میاں نواز شریف بھی شامل ہیں۔ سیاست میں میاں صاحب کی پہلی محبت ایئر مارشل (ر) اصغر خان کی تحریکِ استقلال تھی لیکن میاں صاحب کی سیاست کو جنرل ضیاء اُلحق نے پروان چڑھایا۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب بنا کر جنرل صاحب! میاں صاحب سے بہت محبت کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک دِن انہوں نے علی الاعلان کہا کہ ’’میری دُعا ہے کہ میری عُمر بھی نواز شریف کو لگ جائے۔‘‘ قبولیت کی گھڑی تھی دُعا قبول ہو گئی۔ ہندوستان میں مُغلیہ سلطنت کے بانی شہنشاہ ظہیر اُلدّین بابّر نے بھی اپنے بیمار بیٹے شہزادہ ہمایُوں کے لئے اِسی طرح کی دُعا مانگی تھی۔ اُس نے بسترِ علالت پر پڑے اپنے بیٹے کی چارپائی کے گِرد سات چکر کاٹے۔ ہمایُوں صحت یاب ہو گیا اور شہنشاہ بابر خالقِ حقیقی سے جا مِلا۔ جنرل ضیاء اُلحق ’’قائد عوام اور فخرِ ایشیا‘‘ کی حکومت برطرف کر کے اقتدار میں آئے تھے  لیکن ۔۔۔



    ’’مَیں خُود آیا نہیں، لایا گیا ہُوں‘‘



    کی سی صُورت تھی۔ جناب ذُوالفقار علی بھٹو بھی مارشل لاء کی پیداوار تھے۔ صدر میجر جنرل (ر) سکندر مرزا نے7 اکتوبر 1958ء کو مارشل لاء نافذ کِیا تو جنابِ بھٹو کو بھی مارشل لائی کابینہ میں شامل کر لِیا۔ لیکن 20 دِن بعد پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے  سکندر مرزا کو برطرف کر کے جلا وطن کر دِیا۔ گویا سکندر مرزا نے مارشل لائی صدر کی حیثیت سے صِرف 20 دِن حکومت کی۔ 20 دِن کے دَوران جناب ذُوالفقار علی بھٹو نے سکندر مرزا کو خط لِکھا تھاکہ ’’جنابِ صدر! آپ قائدِاعظمؒ سے بھی بڑے لیڈر ہیں!‘‘ صدر جنرل محمد  ایوب خان نے جناب ِ بھٹو کو اپنی کابینہ میں شامل رکھا اور اپنی شفقت اور سرپرستی میں پروان چڑھاِیا۔ جنابِ بھٹو صدر جنرل ایوب خان کو (جن کی مارشل لائی کابینہ نے فیلڈ مارشل کا خطاب بھی دے دیا تھا) Daddy" (ابّوُ) کہا کرتے تھے۔



    فیلڈ مارشل ایوب خان نے مسلم لیگ کنونشن بنوا کر اُس کی صدارت قبول کی تو کُچھ مُدّت بعد بھٹو صاحب کو کنونشن مسلم لیگ کا مرکزی سیکرٹری جنرل بنوا دِیا۔ بعد ازاں جناب ِ بھٹو نے صدر ایوب خان کو مشورہ دِیا کہ ’’ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کو بالترتیب ضلع کنونشن مسلم لیگ کا صدر اور سیکرٹری جنرل نامزد کر دِیا جائے۔‘‘ لیکن فیلڈ مارشل نے یہ تجویز قبول نہ کی۔ صدر جنرل ضیاء اُلحق نے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد سِندھڑی کے محمد خان جونیجو کو وزیرِاعظم نامزد کر کے اُن کی صدارت میں ایک نئی مسلم لیگ بنوا دی۔ میاں نواز شریف پنجاب مسلم لیگ کے صدر بنائے گئے۔



    جناب ذُوالفقار علی بھٹو نے ’’اعلانِ تاشقند‘‘ کے بعد اختلاف کِیا۔ صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے انہیں فارغ کر دِیا۔ بھٹو صاحب  اپنے سابق ’’ڈیڈی‘‘ کے خلاف اُس تحریک میں شامل ہو گئے جو مشرقی اور مغربی پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں صدر ایوب خان کے خلاف چلا رہی تھیں۔ صدر ایوب خان رخصت ہو گئے لیکن اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر گئے۔ بھٹو صاحب مارشل لائی حکومت میں نائب وزیرِاعظم اور وزیرِ خارجہ بن گئے۔ میاں نواز شریف جنرل ضیاء اُلحق کے خلاف بغاوت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے اور نہ ہی  اُس کی ضرورت تھی۔ جنرل ضیأاُلحق نے جب محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کی تو میاں صاحب نے جونیجو صاحب کے بجائے جنرل ضیاء اُلحق کا ساتھ دِیا تھا۔



    حقیقت تو یہی ہے کہ جناب ذُوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف نے اقتدار میں آ کر ہی عوامی مقبولیت حاصل کی۔ 17 اگست 1988ء کو جب جنرل ضیاء اُلحق ہوائی حادثے میں جاں بحق ہُوئے تو ٗ اُنہیں اسلام آباد کی فیصل مسجد میں دفن کرتے وقت نہ صِرف اسلام آباد بلکہ پُورا پاکستان سوگوار تھا۔ میاں نواز شریف اُن کے سیاسی جانشین ٹھہرے کیونکہ اُس وقت مرحوم صدر کے صاحبزادے جناب اعجازاُلحق اور جناب انواراُلحق سیاست میں نہیں تھے۔ جناب اعجاز اُلحق اپنے والد کے قتل کی سازش کے مقدمے میں مُدّعی تو بن گئے تھے لیکن پھر خاموش ہو گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں بھی اُن کے شوہر جنابِ آصف علی زرداری اور صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری مقدمے کے مُدّعی نہیں بنے کیونکہ زرداری صاحب کو 5 سال تک صدرِ پاکستان کی حیثیت سے ’’قوم کی خدمت‘‘ کرنا تھی۔



    اندرونی اور بیرونی قوتیں جو پاکستان کے دو لَخت ہونے کے بعد  جنابِ بھٹو کو سویِلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اور جنرل ضیاء اُلحق کو فوجی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اقتدار میں لائی تھیں انہوں نے ہی صدر جنرل ضیاء الحق کی زندگی میں اپریل 1986ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کی راہ ہموار کی۔ 1988ء کے عام انتخابات میں محترمہ کو وزیرِاعظم بھی منتخب کروا دِیا۔ پھر میاں نواز شریف بھٹو خاندان کے متحارب سیاستدان بن کر اُبھرے اور تیسری بار وزیرِاعظم بھی منتخب ہو گئے۔ میاں صاحب مارشل لاء کا ساتھ دینے پر قوم سے معافی مانگ چُکے ہیں۔ اب اُن کے لئے (اور شاید جناب اعجاز اُلحق کے لئے بھی) جنرل ضیا اُلحق کی قبر ووٹ بینک نہیں ہے لیکن جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے لئے ذُوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی قبریں (اب سندھ کی حد تک ) ووٹ بینک ہیں۔



    جناب آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری۔1970 ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر نواب شاہ سے قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے تھے۔ پھر وہ نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کِیا تھا لیکن جناب حاکم علی زرداری اور آصف علی زرداری نے قومی اور صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور دونوں ہار گئے تھے۔ جناب آصف علی زرداری نے جناب ذُوالفقار علی بھٹو کو اُس وقت ’’شہِید‘‘ کہنا شروع کِیا جب اُن کی محترمہ بے نظیر بھٹو سے شادی ہوئی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جنرل ضیاء اُلحق کی برسی کے موقع پر دورِ حاضر کے سیاستدان اور مذہبی رہنما اُن کی مغفرت کے لئے دُعاکریں اور پاکستان کے دوسرے مرحوم حکمرانوں کے لئے بھی۔ بعض سابق حکمران تو جیتے جی ہی مُردہ  تصوّر کر لئے جاتے ہیں۔ جنرل ضیاء اُلحق سے میرا تعلق رہا ہے۔ مَیں اُن کے لئے مغفرت کے لئے دُعا کرتا رہتا ہوں۔ ( پنجاب پیپلز پارٹی کی پہلی اور آخری منتخب سیکرٹری جنرل) میری اہلیہ بیگم نجمہ اثر چوہان کو جناب ذُوالفقار علی بھٹو نے اُن کے حق سے محروم کر دِیا تھا لیکن مرحومہ 11 اکتوبر 2008 ء تک (انتقال سے پہلے) اپنے قائد چیئرمین بھٹو کے لئے دُعائے مغفرت کِیاکرتی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ ناگہانی موت سے ہمکنار ہونے والے قائدین کو اپنی مغفرت  کے لئے دُعائوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

      Similar topics

      -

      Current date/time is Thu May 02, 2024 4:01 am