Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ


Join the forum, it's quick and easy

Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ

Rashid Ali Parchaway

Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

Jamal Abad Michni Parchaway.

Keywords

Affiliates


free forum

Forumotion on Facebook Forumotion on Twitter Forumotion on YouTube Forumotion on Google+


    عالمی مالیاتی اداروں کو جھٹکا

    Admin
    Admin
    Admin
    Admin


    Posts : 527
    Join date : 09.10.2014

    عالمی مالیاتی اداروں کو جھٹکا Empty عالمی مالیاتی اداروں کو جھٹکا

    Post by Admin Sat Mar 21, 2015 11:16 am

    عالمی مالیاتی اداروں کو جھٹکا Maliati-jhatka
    دوسری جنگ عظیم کے شعلے سرد ہوئے تو عالمی سود خور مہاجن ایک چھت تلے اکٹھے ہوگئے۔ انہوں نے امریکا اور یورپ کے روشن مستقبل کے لیے باقی دنیا کی قربانی دینے کی ٹھان لی۔ امریکی شہر ’’نیوہیمپ شائر‘‘ دنیا کا معاشی سینٹر بن گیا۔ یہاں دسمبر 1945ء میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ابتداء میں 24 ملکوں نے معاہدے پر دستخط کیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد 183ہوگئی۔ ان بینکوں کے ذیلی اداروں میں بینک فار انٹرنیشنل اسٹیل منٹس(BIS)، آرگنائزیشن فار اکنامک کو آپریشن ڈیویلپمنٹ (OECD)، ایشین ڈیویلپمنٹ بینک (ADB)، افریقن ڈیویلپمنٹ بینک(ADB) اور انٹر امریکن ڈیویلپمنٹ بینک(IADB) شامل ہو گئے۔ یہ سارے بینک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے بالکے بنادیے گئے۔ آئی ایم ایف نے دنیا کے 112 ملکوں کو قرض دیا۔ 10 غریب ملکوں نے 719 بلین ڈالرز قرض لیا۔ 749 بلین ڈالرز لوٹا دیے گئے۔ پھر بھی 1285 بلین ڈالرز سود در سود ان ملکوں کی معیشت کی جڑیں اکھاڑ گئے۔ ان بینکوں نے دنیا بھر میں اپنے پنجے گاڑ دیے۔ ان کے ایما پر ملٹی نیشنل کمپنیاں مجبور ملکوں کی ریڑھ کی ہڈیوں کا گودا چوسنا شروع ہوگئیں۔ فعال سفارت کاری پرجابر انہ قبضہ کر لیا گیا۔ معیشت اور بجٹ ان کی زر خرید لونڈیاں بن گئیں۔ سیاست و ثقافت مکڑی کے جالوں میں لٹکی مکھیاں بن کر رہ گئیں۔ بیورو کریسی ضمیر کی ہر عدالت میں ننگا کرکے کھڑی کر دی گئی۔ صنعت اور تجارت کا پہیہ مہاجنوں کے 
    ر الٹا چلنا شروع ہو گیا۔
    عوام پر ٹیکسوں کا ناقابل برداشت بوجھ لادا جانے لگا۔ ضروریات زندگی مہنگے سے مہنگی ہونا شروع ہوگئیں۔ بجلی، گیس اور پیٹرول کی من چاہی قیمتیں وصول کی جانے لگیں۔ 183 ملکوں میں مالیاتی ذخائر اسٹاک مارکٹیں اور سارابینکاری نظام سود کا کلمہ پڑھتے ہوئے فنا کے گھاٹ اترنا شروع ہو گیا۔
    عالمی مالیاتی اداروں کو جھٹکا Quotation
    ٭ چین کی راہبری میں اگر یہ معاشی نظام رواں چل پڑتا ہے تو واقعی یہ صدی ایشیا کی صدی بن جائے گی۔ ٭ قرض کی مے پینے اور فاقہ مستی کے رنگ لانے کے انتظار نے پاکستان کی اقتصادی غارت گری کے نت نئے ابواب لکھے ہیں۔ ٭ چین ایشیا کا وہ دانا اور بوڑھا کبوتر ہے۔ اس کے پاس زندگی کے ہر میدان کا بے مثال تجربہ ہے۔ ٭



    ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے ’’ایس ڈی آر‘‘ کاغذی سونے کا نظام متعارف کروایا۔ یہ ڈالر ، یورو، پائونڈ اور ین کا ہم پلہ قرار دیا گیا۔ باقی دنیا کی کرنسیاں ان کی زیر نگیں بن گئیں۔ ان اداروں کے چارٹر میں 3 مقاصد درج ہیں۔ اول: یہ عالمی تجارت میں توازن پیدا کریں گے۔ دوم: رکن ملکوں کی کرنسیوں کی شرح تبادلہ طے کریں گے۔ سوم: کرنسیوں کی قیمت گرنے پر مسلسل نظر رکھیں گے۔ ان بظاہر معصوم سی پالیسیوں میں کوبرا سانپوں کا زہر چھپا ہوا تھا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اب تعین کریں گے کہ کن ملکوں کو کب کون کون سی تجارت کرنا ہوگی؟ یوں ملکوں کی ساری اکانومی ان بینکوں کی رکھیل بن گئی۔ کرنسیوں کی شرح تبادلہ میں بڑے ملکوں کو سبقت دے کر غریب ملکوں کا دیوالیہ نکالا جانے لگا۔ کمزور کرنسیوں کے حامل ملکوں پر ننگی تلواریں لٹکا دی گئیں۔ ایس ڈی آر یعنی کاغذی سونے میں امریکہ کا شیئر 17.6 فیصد ، جاپان کا 6.5 فیصد، جرمنی کا 6.2 فیصد، فرانس کا 5.1 فیصد، انگلینڈ کا 5.1 فیصد، اٹلی کا 3.3 فیصد، سعودی عرب کا 3.3 فیصد، کینیڈا کا 3.2 فیصد، چین کا 3.2 فیصد اور روس کا شیئر 2.8 فیصد قرار پایا۔ یوں دنیا کے 10 ملکوں کے ذخائر 56 فیصد اور باقی 173 ملکوں کے ذخائر 44 فیصد تسلیم کیے گئے۔ 10 ملکوں کی رائے تمام دنیا پر بھاری اکثریت سے مان لی جانے لگی۔ 

    ان مالیاتی اداروں میں اہم مسئلوں پر ووٹنگ ہوتی ہے۔ یوں امریکا کے پاس 3 لاکھ 71 ہزار 7 سو ووٹ ہیں۔ جاپان کے پاس ایک لاکھ 33 ہزار 3 سو 78، جرمنی کے پاس ایک لاکھ 30 ہزار 3 سو 32، فرانس کے پاس ایک لاکھ 7 ہزار 6 سو 35 اور برطانیہ کے پاس ایک لاکھ 7 ہزار 6 سو ووٹ ہیں۔ ان 5 ملکوں کے کل ووٹ 8 لاکھ 50 ہزار 7 سو 23 بنتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے کل ووٹر 21 لاکھ 66 ہزار7 سو 49 ہیں۔ ایس آر ڈی کی تعداد 2 لاکھ 12 ہزار 4 سو 15 اشاریہ 9 ملین ڈالرز بنتی ہے۔ 

    ان سود خور مہاجنوں نے ملکوں کو کنگال کیا۔ خانہ جنگیاں کروائیں۔ بدترین قحط پروان چڑھائے۔ ملکوں کی معیشت کی بنیادیں اڑ دیں۔ دنیا بھر میں بدامنی کی ہوائوں کو پھیلا یا گیا۔ محلوں اور جھونپڑیوں کی خلیج کو بڑھایا گیا۔ بادشاہت کو مضبوط کیا اور غریب عوام کو مجبور تر بنایا۔ ان بینکوں نے چند ملکوں میں دولت کا بھرپور ارتکاز کیااور باقی دنیا کو غربت اور جہالت کے اندھیرے بخشے۔ 21 ویں صدی کے دوسرے عشرے میں بھی ان کی ہوس ناکیاں دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں۔ ان کا پیٹ دولت کے انباروں سے بھی نہیں بھر رہا۔ یہ تمام بینک اور ان کی تمام تر بینکاری کے پیچھے امریکی درندوں اور یہودی حیوانوں کے پنجے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اس خوفناک اور زہریلے منظر نامے میں چین نے نیا ایشین بینک بنا کر عالمی مالیاتی اداروں کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے مثبت قدم اٹھایا ہے۔ چین نے 50 ارب ڈالرز سے اس کی شروعات کی ہے۔ یہ بینک ایشیاء میں سڑکوں، ریلوے، پاورپلانٹس اور ٹیلی کمیونیکشن نیٹ ورکس میں سرمایہ فراہم کرے گا۔ اس ایم او یو پر 21 ممالک نے دستخط کردیے ہیں۔ چین کے علاوہ پاکستان، بھارت، سنگاپور، ملائشیا، عمان، قطر، تھائی لینڈ، ازبکستان، قازقستان، ویتنام، فلپائن، برونائی، منگولیا، کویت، کمبوڈیا، لائوس، میانمار، نیپال، سری لنکااوربنگلہ دیش شامل ہوگئے ہیں۔ یوں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے چنگل سے درجنوں ملکوں کے نکل آنے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ امریکا نے حسب توقع اس منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے۔ 

    بیجنگ کے گریٹ ہال آف دی پیپل میں 24 اکتوبر کو ایک شاندار تقریب ہوئی۔ ایشین انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک (AIIB) کی صفہاستی یاداشت پر دستخط ثبت کیے گئے۔ مزید 50 ارب ڈالرز نجی کمپنیوں سے حاصل کرنے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ اس عظیم منصوبے پر امریکی سیکرٹری خزانہ ’’جیکب لیو‘‘ نے شدید اعتراضات کیے ہیں۔ اس کا بیان دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار پانے کا مستحق ہے۔ وہ کہتا ہے اس بینک کے قیام سے انسانی حقوق، مزدور کے تحفظ اور قرضوں کی لازمی شرائط کی پابندی پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ جلے انسانی اعضا کی کالک سے لتھڑے چہرے کے ساتھ انسانی حقوق اور مزدرو ں کے حقوق کی خیر خواہی ایک امریکی ہی کر سکتا تھا۔ یوں یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہو گئی کہ امریکی سے زیادہ بدکردار ایک دوسرا امریکی ہی ہو سکتا ہے۔ 

    چین کی راہبری میں اگر یہ معاشی نظام رواں چل پڑتا ہے تو واقعی یہ صدی ایشیا کی صدی بن جائے گی۔ چین نے اپنے ملک میں 500 بین الاقوامی ہوائی اڈے تعمیر کر رکھے ہیں۔ ان میں سے 100 ایرپورٹس پر ہر منٹ میں ایک پرواز یا تو اترتی ہے یا جہاز سوئے منزل روانہ ہوتا ہے۔ شنگھائی اس وقت دنیا کی سب سے بڑی کارگو پورٹ بنا دی گئی ہے۔ اس پورٹ سے سالانہ 500 ملین ٹن چینی مصنوعات بیرونی دنیا کو بھیجی جارہی ہیں۔ 230 بلین ڈالر کی مصنوعات صرف یورپ ارسال کی جارہی ہیں۔ یورپ چائنا کی سب سے بڑی منڈی بنتا جارہا ہے۔ امریکا ہر سال چین سے 220 بلین ڈالرز کی اشیاء منگوا رہا ہے۔ جاپان 189 بلین ڈالرز کی چینی پراڈکٹس کا گاہک ہے۔ چین امریکا کو قرض دینے والے ملکوں میںایک سرکردہ اقتصادی طاقت ہے۔ چائنا میں 50 کروڑ افراد اعلیٰ ترین ہنر مند کہلانے کے بجا طور پر مستحق ہیں۔ سب سے بڑے دریا ’’پچانگا‘‘ پر درجنوں نئے چھوٹے بڑے ڈیمز زیر تعمیرہیں۔ یہ چین کو 18 ہزار 2 سو میگاواٹ بجلی فراہم کریں گے۔ ان میں دنیا کا سب سے بڑا ہائیڈرل پاور پلانٹ بھی شامل ہوگا۔ دوسری طرف چین 1300 کلومیٹر لمبی نہریں کھود رہا ہے جو دور افتادہ علاقوں کو سیراب کریں گی۔ چین 18 بلین ڈالرز کی لاگت سے 4 ہزار کلو میٹر لمبی گیس پائپ لائن کی تعمیر کے آخری مراحل میں داخل ہو گیا ہے۔ 

    اس پائپ لائن سے 5700 چھوٹے بڑے کارخانوں کو گیس مہیا کی جائے گی۔ عالمی معیار کی سڑکوں کا ایک جال ہے جو ملک کے طول و عرض میں بُن دیا گیا ہے۔ چینی صنعت کاری اپنے زیریں دور سے گزر رہی ہے۔ ایسے ملک کا بنایا گیا بینک اپنے ساتھ روشن ترین ساکھ لائے گا۔ رکن ملکوں کو نہایت آسان شرائط پر قرضہ مہیا کیا جائے گا۔ یہ ملک سڑکوں، ریلوے، پاور پلانٹس اور ٹیلی کمیونیکشن کے نیٹ ورکس بنا پائیں گے۔ آنے والی آمدنی سے اقساط ادا کر دی جائیں گی۔ بینک ان ملکوں کے نظام میں کوئی عمل دخل نہ رکھے گا۔ یوں یہ ملک آزاد ہوں گے۔ ان کو معاشی زنجیروں میں باندھ لینے کی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسی روشوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ روشنیوں کا کارواں گلی، کوچوں، قصبوں اور شہروں میں رواں دواں ہو جائے گا۔ ترقی کا عمل حیرت انگیز طور پر تیز ہو جائے گا۔ 

    ہمارے ملک کی طرف آئیے تو پاکستان کی اقتصادی تاریخ دراصل تیزی سے زمین بوس ہوتی ہوئی اکانومی کی روداد ہے۔ اس میں عالمی بینکوں نے نہایت گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ موجودہ حکومت کے ان 16 ماہ میں ہمارا قرضہ 140 ارب ڈالرز سے بڑھ کر 149 ارب ڈالرز ہوگیا ہے۔ بیرونی قرضہ 65 ارب ڈالرز اور اندورنی قرضہ 84 ارب ڈالرز کے گراف عبورکر گیا ہے۔ جون 2013ء میں ہمارے وزیر خزانہ نے بڑے وثوق سے کہا تھا کہ جی ڈی پی کے مقابلے میں ہمارے ملکی قرضوں کی شرح ایک سال میں 63.5 سے کم کر کے 62 فیصد اور اگلے 3 سالوں میں 58 فیصد تک لے آئی جائے گی، جبکہ آج ایک برس بعد یہ 63.5 سے بڑھ کر 64.27 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ ہر پاکستانی 85 ہزار کا مقروض ہو کر رہ گیا ہے۔ 

    دوسری طرف دعوئوں کے بر خلاف بیرونی دنیا سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی شرح خوفناک حد تک کم ہوکر رہ گئی ہے۔ جولائی تا ستمبر 3 ماہ میں صرف 16 کروڑ 90 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری ہو پائی ہے۔ یوں سرمایہ کاری میں 26.6 فیصد کمی ہوئی۔ چین کی طرف سے ایک کروڑ 45 لاکھ ڈالرز اور سعودی عرب کی طرف سے 39 لاکھ ڈالرز کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا گیا ہے۔ برآمدات میں کمی 6.2 فیصد ہوئی۔یہ صورت حال اس درجہ گھمبیر ہے کہ معیشت کا ہولناکی زوال سامنے دیوار پہ لکھا نظر آرہا ہے۔ قرض کی مے پینے اور فاقہ مستی کے رنگ لانے کے انتظار نے پاکستان کی اقتصادی غارت گری کے نت نئے ابواب لکھے ہیں۔ ہمارے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو نے ملک بھر میں اکھٹے کیے گئے ٹیکسوں کا گوشوارہ شائع کیا ہے۔ یہ اپنے ہدف سے 70 ارب روپے کم ٹیکس کلیکشن کر پایا۔ یوں ہمارے ٹوٹل ٹیکس کا لگ بھگ 2 تہائی یعنی 65 فیصدآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو سود اور قرضہ لوٹانے پر خرچ ہو رہا ہے۔ صرف 35 فیصد سے ملک چلایا جا رہا ہے۔ ملک میں ایک ’’کالی معیشت ‘‘ کی آندھی بھی چل رہی ہے۔ یہ وہ کالا دھن ہے جو اکانومی کو بڑھانے کے بجائے اس کا لہوچو سے جارہا ہے۔ یہ ہماری مجموعی معیشت کے 70 فیصد سے بھی بڑھ گیا ہے۔ یوں تصویر یہ بنی کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ریشہ دوانیوں اور ہمارے لیڈروں کی عاقبت نا اندیشوں سے ہم ایک بند گلی میں مقید ہوکر رہ گئے ہیں۔ آگے راستہ بند ہے پیچھے عالمی سود خور مہاجنوں کی پورے کی پوری فوج ہمارے تعاقب میں ہے۔ 

    ہمارے لیڈروں کو فی الفور چائنا کے کھولے گئے نئے دروازے میں داخل ہو جانا چاہیے۔ اس بینک کو کامیاب کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اس دھارے کو لبیک کہنا چاہیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چنگل سے نکل آئیں گے۔ ہمیں ان یہودی اداروں پر اپنا انحصارتو کم سے کم کرنا ہو گا۔ یہ یاجوج ماجوج ہماری معاشی دیوار کو چاٹ گئے ہیں۔ یہ سب دیواریں اب زمیں بوس ہونے کو ہیں۔ چین کی ورطۂ حیرت میں ڈالنے والی ترقی سے ہمیں اسباق بھی سیکھنے ہوں گے۔ مثل مشہور ہے کہ کسی سے مچھلی لینے کے بجائے مچھلی پکڑنے کا ہنر سیکھ لینا بدرجہا بہتر ہے۔ اس طرح آپ رزق کے معاملے میں خود کفیل ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اس خول کو بدلنا ہو گا۔ شکست خوردہ زہنیت کو دیس سے نکالنا ہو گا۔ پورے قد کے ساتھ دنیا میں کھڑا ہونا ہو گا۔ قدرت نے اس ارض پاک کو مادی اور انسانی خزانوں سے لبالب بھرا ہوا ہے۔ ان سے بروقت فائدہ اٹھانے ہی سے ہماری قومی اور ملی خوشحالی کی منزل قریب تر آجائے گی۔ 

    یہاں مجھے ایک حکایت یاد آتی ہے۔ کچھ کبوتر کسی شکاری کے جال میں پھنس گئے۔ ہر ایک نے آزاد ہونے کی اپنی اپنی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ ایک دانا بوڑھے کبوتر نے سب سے کہا: ’’تم الگ الگ رہائی کی کوششیں کر رہے ہو، اس لیے ناکام ہو رہے ہو، اگر سب مل کر ایک ساتھ اڑنے کی تگ و دو کر وتو جال کو ہی اڑا کر لے جائو گے۔‘‘ سب کبوتروں نے بیک وقت پرواز بھری اور جال سمیت اڑگئے۔ شکاری ہاتھ ملتا رہ گیا۔ چین ایشیا کا وہ دانا اور بوڑھا کبوتر ہے۔ اس کے پاس زندگی کے ہر میدان کا بے مثال تجربہ ہے۔ ہمیں اس کی دانائی اور فہم و فراست پر انحصار کرنا چاہیے۔ اگر سارے کا سارا ایشیا جال سمیت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے شکاریوں کو جُل دے گیا تو یہ مکروہ مخلوق اپنے ناپاک ارادوںمیں ناکام ہو جائے گی۔ پاکستان کو اس زریں موقعے سے بھر پور فائدہ اٹھانا ہے۔ یوں جی ڈی پی کا 65 فیصد قرضوں اور سود پر خرچ کرنے والے ملک کے دن پھر سکتے ہیں۔ پاکستان روشنیوں اورجاں افزا رنگوں کانگربن سکتا ہے۔


    ____________
    راشد صاحب

      Current date/time is Thu May 02, 2024 2:48 pm