قومی اسمبلی کی مکمل کاروائی سرکاری سطح پر پہلی دفعہ شائع ہو گئی ہے، جس کے نتیجے میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا اس لیے قادیانیوں کی حجت ختم ہو گئی، کہ حکومت اس کو چھاپنے کی ہمت نہیں کر سکتی، کتاب کا ایک ایک لفظ پڑھنے کے لائق ہے۔ قادیانیوں کو اس کتاب کو جو سرکاری سطح پر چھاپی گئی ہے کا ایک عدد نسخہ دے دیا ہے ۔لہٰذا اب ان کے پاس اس کا کوئی جواز باقی نہیں رہا سوائے اس کے کہ پارلیمان اور عدالت کے حکم پر سرِ تسلیم خم کر کے اسے من و عن قبول کیا جائے۔آئیے آپ کو اس ساری کاروائی کی تفصیل سے آگاہ کرتے ہیں کہ سب کچھ کیسے ہوا۔ جناب اس کا آغاز ہوتا ہے اس رٹ پٹیشن سے جو بشیر احمد خان نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی۔

بشیر احمد خان کی رٹ پٹیشن

بشیر احمد خان کی رٹ پٹیشن جس میں انہوں نے قومی اسمبلی ۱۹۷۴ء والی کاروائی کا مکمل ریکارڈ طلب کیا تھا۔ بشیر احمد خان کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر قومی اسمبلی نے محترمہ فہمیدہ مرزا صاحبہ نے اس کی پرنٹنگ کا حکم صادر فرمایا۔ اس مکمل ریکارڈ کو اکٹھا کرنے پر ۴۰۴۰۰ چالیس لاکھ اور چالیس ہزار روپیہ اور بعدازاں اس کی پرنٹنگ پر ۶ لاکھ ۷۸ ہزار روپے خرچ ہوئے، یعنی کل ۴۷ لاکھ ۱۸ ہزار روپیہ خرچ آیا۔ ان کاغذات میں، بشیر احمد خان کی درخواست پر ہائی کورٹ کا آرڈر شامل ہے جس کی پیروی کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی نے تمام ریکارڈ پر مشتمل ساری کروائی ایک کتابی شکل میں لاہور ہائی کورٹ کو مہیا کی اور پھر بشیر احمد خان صاحب کو اس کا ایک نسخہ ان کے وکیل کی معرفت مہیا کیا گیا۔

قادیانیوں کو کافر کیوں قراردیا گیا ۔ قومی اسمبلی کی مکمل کاروائی سرکاری سطح پر پہلی دفعہ شائع ہو گئی ہے، اس لیے ان کی حجت ختم ہو گئی، کہ حکومت اس کو چھاپنے کی ہمت نہیں کر سکتی، کتاب کا ایک ایک لفظ پڑھنے کے لائق ہے۔ قادیانیوں کو سرکاری سطح پر چھاپی گئی کتاب کا ایک مکمل نسخہ دے دیا گیا ہے۔ اس کتاب کے 21 حصے ہیں ،اور اب ہم یہ سب تمام مسلم امہ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں تا کہ سبھی دوست اس تمام کروائی سے آگاہ ہو سکیں اور قادیانیوں کے جھوٹے پراپیگنڈے کا تن دہی سے مقابلہ کر سکیں۔

قومی اسمبلی کا فیصلہ- قادیانی احمدی کافر ہیں؛ کچھ پسِ منظر کچھ پیش منظر

اسپیکر قومی اسمبلی محترمہ فہمیدہ مرزا نے اپنے خصوصی اختیارات کے تحت سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے متعلق پارلیمنٹ کے بند کمرے کے اجلاس میں ہونے والی بحث کے ریکارڈ کو 36 سال بعد اوپن کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ذرائع کے مطابق بھٹو دور میں 1974ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے سے متعلق پارلیمنٹ کے بند کمرے کا اجلاس تقریباً ایک ماہ سے زائد جاری رہا تھا۔ جس کے نتیجہ میں قادیانیوں کو ان کے کفریہ عقائد کی بناء پر ملک کی منتخب جمہوری حکومت نے متفقہ طور پر 7 ستمبر1974ء کو انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا اورآئین پاکستان کی شق 160(2) اور 260(3) میں اس کا اندراج کر دیا۔ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر بحث کا تمام ریکارڈ اسی وقت سیل کر دیا گیا تھا۔ یہ شرط رکھی گئی تھی کہ اسے تیس سال سے کم کے عرصے میں اوپن نہیں کیا جائے گا۔ اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے اب اس وقت کی بحث کے ریکارڈ کو لائبریری میں رکھنے کی منظوری دے دی ہے۔ اسمبلی ترجمان نے بتایا کہ اس وقت بحث کا تمام ریکارڈ پرنٹنگ کے مراحل میں ہے اور جلد اسے لائبریری کا حصہ بنا دیا جائے گا۔
قادیانی 1974ء سے لے کر اب تک یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ اگر یہ کارروائی شائع ہو جائے تو آدھا پاکستان قادیانی ہو جائے گا۔ قومی اسمبلی کی یہ کارروائی اوپن ہونے سے قادیانیوں کا دیرینہ مطالبہ پورا ہو گیا۔ لیکن حیرت ہے کہ اس خبر سے قادیانیوں کے ہاں صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔ اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار مرحوم نے ایک سوال پر کہ ’’قادیانیوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ روداد شائع ہو جائے تو آدھا پاکستان قادیانی ہو جائے گا۔‘‘ کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہ کارروائی ان کے خلاف جاتی ہے۔ ویسے وہ اپنا شوق پورا کر لیں، ہمیں کیا اعتراض ہے۔ ان دنوں ساری اسمبلی کی کمیٹی بنا دی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہ ساری کارروائی سیکرٹ ہو گی تا کہ لوگ اشتعال میں نہ آئیں۔ میرے خیال میں اگر یہ کارروائی شائع ہو گئی تو لوگ قادیانیوں کو ماریں گے۔‘‘ (انٹرویو نگار منیر احمد منیر ایڈیٹر ’’ماہنامہ آتش فشاں‘‘ لاہور، مئی 1994ء) سابق اٹارنی جنرل اور معروف قانون دان جناب یحییٰ بختیار نے جس لگن، جانفشانی اور قانونی مہارت سے امت مسلمہ کے اس نازک اور حساس کیس کو لڑا، قادیانی شاطر سربراہوں پر طویل اور اعصاب شکن جرح کے بعد جس طرح ان سے ان کے عقائد و عزائم کے بارے میں سب کچھ اگلوایا، بلکہ اعتراف جرم کروایا، وہ انہی کا خاصہ ہے، جس پر وہ صد ستائش کے مستحق ہیں۔ بلاشبہ ان کی یہ خدمت سنہرے حروف سے لکھی جانے کے قابل ہے۔ لیکن اس کے برعکس قادیانیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کارروائی کے نتیجہ میں قومی اسمبلی کا کوئی ایک رکن بھی قادیانی نہیں ہوا۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے اجلاس سے واک آؤٹ نہیں کیا۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے قادیانیوں کی حمایت نہیں کی۔ اس کے برعکس نہ صرف تمام ارکان نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا بلکہ قادیانی خلیفہ مرزا ناصر کی ٹیم میں شامل ایک معروف قادیانی مرزا سلیم اختر چند ہفتوں بعد قادیانیت سے تائب ہو کر مسلمان ہو گیا۔ حالانکہ قادیانی خلیفہ مرزا ناصر پوری ٹیم کے ساتھ مکمل تیاری سے بڑی خوشی سے قومی اسمبلی گیا۔ اس کے اسمبلی کے اندر داخل ہونے کا انداز بڑا فاتحانہ، تکبرانہ اور تمسخرانہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ میں تاویلات اور شکوک و شبہات کے ذریعے اسمبلی کو قائل کر لوں گا، مگر بری طرح ناکام رہا۔ قادیانی قیادت نے قومی اسمبلی کے تمام اراکین میں 180 صفحات پر مشتمل کتاب ’’محضر نامہ‘‘ تقسیم کی، جس میں اپنے عقائد کی بھرپور ترجمانی کی۔ اس کتاب کے آخری صفحہ پر ’’دعا‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے؛ ’’دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے معزز ارکان اسمبلی کو ایسا نور فراست عطا فرمائے کہ وہ حق و صداقت پر مبنی ان فیصلوں تک پہنچ جائیں جو قرآن و سنت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوں۔‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قادیانیوں کی دعا قبول ہوئی تو وہ قومی اسمبلی کا یہ فیصلہ قبول کیوں نہیں کرتے؟ اور اگر دعا قبول نہیں ہوئی تو وہ جھوٹے ہیں۔
قادیانی اعتراض کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی کی اس کارروائی کو اِن کیمرہ، خفیہ کیوں رکھا گیا۔ یہ کارروائی اخبارات میں روزانہ کیوں شائع نہ ہوئی؟۔ اس سوال کا جواب قومی اسمبلی کے اس وقت کے سپیکر جناب صاحبزادہ فاروق علی خان نے اپنے ایک انٹرویو میں دیتے ہوئے کہا؛
’’بحث اور کارروائی کے دوران ایسی باتوں کے پیش آنے کا بھی امکان تھا کہ اگر منظرعام پر آئیں تو مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی تھی۔ قادیانی فرقوں کے رہنماؤں کو بھی بلانا تھا۔ ان کا نقطۂ نظر بھی سننا تھا۔ ظاہر ہے وہ جو کچھ کہتے، مسلمانوں کو ہرگز اتفاق نہ ہوتا۔ لہٰذا کارروائی خفیہ ہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ناموس رسالت کا مسئلہ نازک اور حساس ہے۔ مسلمان جان بھی قربان کر دینا ایک انتہائی معمولی بات سمجھتا ہے، لہٰذا کسی بھی خطرناک جذباتی صورتحال سے بچنے کے لیے اس کارروائی کو خفیہ رکھنا ہی مناسب تھا۔ حضور رسالت مآب ﷺ کی ذات گرامی کے ساتھ امت کو جو والہانہ عشق ہے، اس کو زبان و قلم سے بیان کرنا ناممکن ہے۔ اس خفیہ بحث کا فیصلہ کھلا تھا اور اس فیصلے سے ملت اسلامیہ آج تک مطمئن ہے۔‘‘ (قومی اسمبلی کے سابق سپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان سے اختر کاشمیری صاحب کا انٹرویو، روزنامہ ’’جنگ‘‘ جمعہ میگزین 3 تا 9 ستمبر 1982ء)۔
قادیانی کہتے ہیں یہ ایک یکطرفہ فیصلہ تھا۔ یہ بات لاعلمی اور تعصب پر مبنی ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوری نظام حکومت میں کوئی بھی اہم فیصلہ ہمیشہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ لیکن قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کا فیصلہ شاید دنیا کا واحد اور منفرد واقعہ ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر کو پارلیمنٹ میں آ کر اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کے لیے بلایا۔ جہاں اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے اس پر، قادیانی کفریہ عقائد کے حوالہ سے جرح کی۔ مرزا ناصر نے اپنے تمام عقائد و نظریات کا برملا اعتراف کیا بلکہ تاویلات کے ذریعے ان کا دفاع بھی کیا۔ لہٰذا ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے ۱۳ دن کی طویل بحث و تمحیص کے بعد آئین میں ترمیم کرتے ہوئے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا، لیکن قادیانیوں نے حکومت کے اس فیصلہ کو آج تک تسلیم نہیں کیا، بلکہ الٹا وہ مسلمانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور انھیں سرکاری مسلمان ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ وہ خود کو مسلمان اور مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں اور آئین میں دی گئی اپنی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔
قادیانی کہتے ہیں کہ اس وقت اراکین اسمبلی کی اکثریت زانی اور شرابی تھی۔ انھیں کوئی حق حاصل نہ تھا کہ وہ ایسا فیصلہ کرتے۔ قادیانیوں سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے اس وقت اسمبلی کا بائیکاٹ کیوں نہ کیا؟، کیا انہیں وہاں زبردستی لے جایا گیا تھا؟، حالانکہ وہ تو وہاں گئے ہی اس لیے تھے کہ قومی اسمبلی جو بھی فیصلہ کرے گی، ہمیں قبول ہو گا۔ عجیب بات ہے کہ اگر قادیانیوں کو پارلیمنٹ غیر مسلم اقلیت قرار دے تو وہ زانی اور شرابی، اگر سپریم کورٹ انہیں کافر قرار دے تو یہ کہنا کہ یہ تو انگریزی قانون پڑھے ہوئے ہیں، انھیں شریعت کا کیا علم؟، اور اگر علمائے کرام انہیں غیر مسلم کہیں تو یہ اعتراض کہ ان کا تو کام ہی یہی ہے۔

قادیانی کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 20 کے تحت ہر شہری کو مذہبی طور پر آزادی اظہار ہے۔ آپ کسی پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ قادیانیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ (نعوذ باللہ) قرآن مجید میں نئے حالات کے مطابق تبدیلی کر دی گئی ہے۔ اس میں سے کئی آیات خارج کر دی گئی ہیں اور کئی آیات شامل کر دی گئی ہیں اور پھر وہ اس نئے قرآن کی تبلیغ و تشہیر بھی کرے تو کیا اس شخص پر پابندی لگنی چاہیے یا نہیں؟، اگر وہ یہ کہے کہ مجھے آئین کے تحت آزادی اظہار ہے تو کیا اسے یہ اجازت دینی چاہیے؟، پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ہر شخص کو کاروبار کی مکمل آزادی ہے مگر ہیروئن اور منشیات وغیرہ فروخت کرنا سختی سے منع ہے۔ کیا یہ آزادی پر پابندی ہے؟، آزادی چند حدود و قیود کے تابع ہوا کرتی ہے۔ آپ اپنا ہاتھ ہلانے میں آزاد ہیں، جب اور جس طرح چاہیں، اسے ہلا سکتے ہیں۔
لیکن اگر آپ کے ہاتھ ہلانے سے کسی دوسرے کا چہرہ زخمی ہوتا ہے تو پھر اس کی آزادی کہاں گئی؟، لہٰذا آزادی ایک حد تک ہے۔ آزادی بے لگام یا شتر بے مہار ہو جائے تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود قادیانی مسلسل شعائرِ اسلامی استعمال کرتے ہیں۔ غیر مسلم ہونے کے باوجود اپنی عبادت گاہ کو مسجد، مرزا قادیانی کو نبی اور رسول، مرزا کی بیوی کو ام المومنین، مرزا قادیانی کے دوستوں کو صحابہ کرام، قادیان کو مکہ مکرمہ، ربوہ کو مدینہ، مرزا قادیانی کی باتوں کو احادیث مبارکہ، مرزا قادیانی پر اترنے والی نام نہاد وحی کو قرآن مجید، محمد رسول اللہ سے مراد مرزا قادیانی مراد لیتے ہیں۔ چنانچہ26 اپریل 1984ء کو حکومت نے مسلمانوں کے پرُ زور مطالبہ پر ایک آرڈیننس جاری کیا گیا، جس میں قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے قانوناً روکا گیا۔ اس آرڈیننس کے نتیجہ میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298/b اور 298/c کے تحت کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا، اپنے مذہب کو اسلام نہیں کہہ سکتا، اپنے مذہب کی تبلیغ و تشہیر نہیں کر سکتا، شعائر اسلامی استعمال نہیں کر سکتا۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ 3 سال قید اور جرمانہ کی سزا کا مستوجب ہو گا۔ قادیانیوں نے اپنے خلیفہ مرزا طاہر کے حکم پر آرڈیننس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پورے ملک میں شعائر اسلامی کی توہین کی اور آرڈیننس کے خلاف ایک بھرپور مہم چلائی۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان کے اکثر شہروں میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہوئی۔ قادیانی قیادت نے اس آرڈیننس کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ قادیانیوں پر پابندی بالکل درست ہے۔ اس کے بعد قادیانیوں نے چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس میں چیلنج کیا، یہاں پر بھی عدالتوں نے دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد قرار دیا کہ آرڈیننس بالکل قانون کے مطابق ہے۔ قادیانیوں کو آئین میں دی گئی اپنی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے شعائر اسلامی استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ آخر میں قادیانیوں نے ان تمام فیصلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ ہمیں آئین کے مطابق آزادی کا حق حاصل ہے، لیکن ہمیں شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ لہٰذا عدالت تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298/b اور 298/c کو کالعدم قرار دے۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اس کیس کی مفصل سماعت کی۔ دونوں طرف سے دلائل دیے گئے۔ قادیانیوں کی اصل کتابوں سے متنازعہ ترین حوالہ جات پیش کیے گئے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ ظہیر الدین بنام سرکار (1993 scmr 1718) میں قرار دیا کہ کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا اور نہ اپنے مذہب ہی کی تبلیغ کر سکتا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ سزا اور جرمانے کا مستوجب ہو گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ جج صاحبان کسی دینی مدرسہ یا اسلامی دارالعلوم کے استاد نہیں تھے بلکہ انگریزی قانون پڑھے ہوئے تھے۔ ان کا کام آئین و قانون کے تحت انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے۔ فاضل جج صاحبان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قادیانی اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ دھوکہ دینا کسی کا بنیادی حق نہیں ہے اور نہ اس سے کسی کے حقوق یا آزادی ہی سلب ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ میں لکھا؛ ’’ ہر مسلمان کے لیے جس کا ایمان پختہ ہو، لازم ہے کہ رسول اکرم ؐ کے ساتھ اپنے بچوں، خاندان، والدین اور دنیا کی ہر محبوب ترین شے سے بڑھ کر پیار کرے۔‘‘ (’’صحیح بخاری ‘‘ ’’کتاب الایمان‘‘، ’’باب حب الرسول من الایمان‘‘) کیا ایسی صورت میں کوئی کسی مسلمان کو مورد الزام ٹھہرا سکتا ہے۔ اگر وہ ایسا دل آزار مواد جیسا کہ مرزا صاحب نے تخلیق کیا ہے سننے، پڑھنے یا دیکھنے کے بعد اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے؟ ’’ہمیں اس پس منظر میں قادیانیوں کے صد سالہ جشن کی تقریبات کے موقع پر قادیانیوں کے اعلانیہ رویہ کا تصور کرنا چاہیے اور اس ردعمل کے بارے میں سوچنا چاہیے، جس کا اظہار مسلمانوں کی طرف سے ہو سکتا تھا۔ اس لیے اگر کسی قادیانی کو انتظامیہ کی طرف سے یا قانوناً شعائر اسلام کا اعلانیہ اظہار کرنے یا انہیں پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تو یہ اقدام اس کی شکل میں ایک اور ’’رشدی‘‘ (یعنی رسوائے زمانہ گستاخ رسول ملعون سلمان رشدی جس نے شیطانی آیات نامی کتاب میں حضور ﷺ کی شان میں بے حد توہین کی) تخلیق کرنے کے مترادف ہو گا۔ کیا اس صورت میں انتظامیہ اس کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ کی ضمانت دے سکتی ہے اور اگر دے سکتی ہے تو کس قیمت پر؟ ردعمل یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی قادیانی سرعام کسی پلے کارڈ، بیج یا پوسٹر پر کلمہ کی نمائش کرتا ہے یا دیوار یا نمائشی دروازوں یا جھنڈیوں پر لکھتا ہے یا دوسرے شعائر اسلامی کا استعمال کرتا یا انہیں پڑھتا ہے تو یہ اعلانیہ رسول اکرم ؐ کے نام نامی کی بے حرمتی اور دوسرے انبیائے کرام کے اسمائے گرامی کی توہین کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب کا مرتبہ اونچا کرنے کے مترادف ہے جس سے مسلمانوں کا مشتعل ہونا اور طیش میں آنا ایک فطری بات ہے اور یہ چیز نقض امن عامہ کا موجب بن سکتی ہے، جس کے نتیجہ میں قادیانیوں کے جان و مال کا نقصان ہو سکتا ہے۔‘‘
(ظہیر الدین بنام سرکار1993ء scmr 1718)۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں مزید لکھا؛ ’’ہم یہ بھی نہیں سمجھتے کہ قادیانیوں کو اپنی شخصیات، مقامات اور معمولات کے لیے نئے خطاب، القاب یا نام وضع کرنے میں کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آخر کار ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر برادریوں نے بھی تو اپنے بزرگوں کے لیے القاب و خطاب بنا رکھے ہیں اور وہ اپنے تہوار امن و امان کا کوئی مسئلہ یا الجھن پیدا کیے بغیر پُرامن طور پر مناتے ہیں۔‘‘
(ظہیر الدین بنام سرکار1993ء scmr 1718)۔
افسوس ہے کہ قادیانی آئین میں دی گئی اپنی حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ اس صورتحال میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ قادیانیوں کو آئین اور قانون کا پابند بنائے تاکہ ملک بھر میں کہیں بھی لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا نہ ہو۔ حضرت عمر فاروق ؓ کا قول ہے کہ قانون پر عملدرآمد ہی اصل قانون ہے۔

1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں جماعت احمدیہ کا جو وفد پیش ہوا تھا اس نے اپنا مؤقف تحریری طور پر پیش کیا تھا جسے ’’محضرنامہ‘‘ کا نام دیا گیا تھا ۔ محضر نامہ وہ اہم تاریخی دستاویز ہے جو جماعتِ احمدیہ نے 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے پورے ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی کے سامنے اپنے مسلمان ہونے، اپنے بنیادی عقائد کی وضاحت اور جماعت پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات کی تردید کے لئے پیش کی تھی اور یہ بات شروع میں ہی واضح کر دی گئی تھی کہ جماعتِ احمدیہ کے نزدیک دُنیا کی کسی اسمبلی یا عدالت کو کسی شخص یا جماعت کے مذہب کی تعیین کا قطعاً کوئی اختیار نہیں کیونکہ اِس کا اختیار صرف خدا تعالیٰ کو ہے جو دلوں کے بھید سے واقف ہے۔ اِسی طرح درد بھرے الفاظ میں یہ انتباہ بھی کیا گیا تھا کہ یہ اسمبلی احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر اُمّتِ محمدیہ (صلی الله علیہ وسلم) کے اِتحاد میں رخنہ ڈالنے کا موجب نہ بنے کیونکہ اِس سے ایک ایسی غلط اور خوفناک مثال قائم ہو گی جو آئندہ دوسرے فرقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
جماعت احمدیہ کے بارے میں کوئی فیصلہ بھی کرنے سے پہلے اس دستاویز کو پڑھا جانا ضروری ہے جس میں جماعت احمدیہ کے عقائد تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں۔ اور جو اعتراضات جماعت پر اٹھائے جاتے ہیں ان کے جوابات بھی اس میں دئیے گئے تھے۔ آپ مندرجہ ذیل لنک پر کلک کر کے آن لائن ’’محضرنامہ‘