Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ


Join the forum, it's quick and easy

Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ

Rashid Ali Parchaway

Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

Jamal Abad Michni Parchaway.

Keywords

Affiliates


free forum

Forumotion on Facebook Forumotion on Twitter Forumotion on YouTube Forumotion on Google+


    شیطان

    Admin
    Admin
    Admin
    Admin


    Posts : 527
    Join date : 09.10.2014

    شیطان Empty شیطان

    Post by Admin Mon May 11, 2015 3:00 pm



    بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
    شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
    * اس کے سورۃ الناس ہے، ان دونوں کی مشترکہ فضیلت متعدد احاچیث میں بیان کی گئی ہے۔ مثلا ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"آج کی رات مجھ پر کچھ ایسی آیات نازل ہوئی ہیں جن کی مثل میں نے کبھی نہیں دیکھی"یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں سورتیں پڑھیں (صحیح مسلم) ابو حابس جہنی رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"اے ابو حابس! کیا میں تمہیں سب سے بہترین تعویذ نہ بتاؤں جس کے ذریعے سے پناہ طلب کرنے والے پناہ مانگتے ہیں انہیں نے عرض کیا، ہاں ضرور بتلایئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سورتوں کا ذکر کر کے فرمایا یہ دونوں معوذتان ہیں"(صحیح النسائی) نبی صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں اور جنوں کی نظر سے پناہ مانگا کرتے تھے، جب یہ دونوں سورتیں نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پڑھنے کو معمول بنا لیا اور باقی دوسری چیزیں چھوڑ دیں (صحیح الترمذی) حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف ہوتی تو معوذتین (قل اعوذ برب الفلق ) اور (قل اعوذ برب الناس) پڑھ کر اپنے جسم پر پھونک لیتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف زیادہ ہوگئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کو برکت کی امید سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پھیرتی (بخاری) جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تو جبرائیل علیہ السلام یہی دو سورتیں لے کر حاضر ہوئے اور فرمایا کہ ایک یہودی نے آپ صلی اللہ علی وسلم پر جادو کیا ہے، اور یہ جادو فلاں کنویں میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ کو بھیج کر اسے منگوایا، (یہ ایک کنگھی کے دندانوں اور بالوں کے ساتھ ایک دانتوں کے اندر گیا گرہیں پڑی ہوئی تھیں اور موم کا ایک پتلا تھا جس میں سوئیاں چبھوئی ہوئی تھیں) جبرائیل علیہ السلام کے حکم مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں سورتوں میں سے ایک ایک آٰیت پڑھتے جاتے اور گرہ کھلتی جاتی اور سوئی نکلتی جاتی خاتمے تک پہنچتے پہنچتے ساری گرہیں بھی کھل گئیں اور سوئیاں بھی نکل گئیں آپ صل اللہ علی وسلم اس طرح صحیح ہوگئے جیسے کوئی شخص جکڑ بندی سے آزاد ہو جائے (صحیح ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول بھی تھا کہ رات کو سوتے وقت سورہ اخلاص اور معوذتین پڑھ کر اپنی ہتھیلیوں پر پھونکتے اور پھر انہیں پورے جسم پر ملتے، پہلے سر،چہرے اور جسم کے اگلے حصے پر ہاتھ پھیرتے، اس کے بعد جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ ولسم کے ہاتھ پہنچتے تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے۔(صحیح بخاری)
    قُلْ أَعُوذُ بِرَ‌بِّ الْفَلَقِ ﴿١﴾
    آپ کہہ دیجئے! کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں (١)
    فلَق کے معنی صبح کے ہیں۔ صبح کی تخصیص اس لئے کی کہ جس طرح اللہ تعالٰی رات کا اندھیرا ختم کر کے دن کی روشنی لا سکتا ہے، وہ اللہ اسی طرح خوف اور دہشت کو دور کر کے پناہ مانگنے والے کو امن بھی دے سکتا ہے۔ یا انسان جس طرح رات کو اس بات کا منتظر ہوتا ہے کہ صبح روشنی ہو جائے گی، اسی طرح خوف زدہ آدمی پناہ کے ذریعے سے صبح کامیابی کے طلوع کا امیدوار ہوتا ہے۔ (فتح القدیر)
    مِن شَرِّ‌ مَا خَلَقَ ﴿٢﴾
    ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔ 
    یہ عام ہے اس میں شیطان اور اس کی ذریت، جہنم اور ہر اس چیز سے پناہ ہے جس سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
    وَمِن شَرِّ‌ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ﴿٣﴾
    اور اندھیری رات کی تاریکی کے شر سے جب اس کا اندھیرا پھیل جائے۔
    رات کے اندھیرے میں خطرناک درندے اپنی کچھاروں سے اور موذی جانور اپنے بلوں سے اور اسی طرح جرائم پیشہ افراد اپنے مذموم ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نکلتے ہیں ان الفاظ کے ذریعے سے ان تمام سے پناہ طلب کی گئی۔ غاسق، رات وقت داخل ہو جائے،چھا جائے۔
    وَمِن شَرِّ‌ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴿٤﴾
    اور گرہ (لگا کر ان) میں پھونکنے والیوں کے شر سے (بھی) 
    نفاثات، مونث کا صیغہ ہے، جو النفوس (موصوف محذوف ) کی صفت ہے من شر النفوس النفاثات یعنی گرہوں میں پھونکنے والے نفسوں کی برائی سے پناہ اس سے مراد جادو کا کالا عمل کرنے والے مرد اور عورت دونوں ہیں یعنی اس میں جادوگروں کی شرارت سے پناہ مانگی گئی ہے، جادوگر پڑھ پڑھ کر پھونک مارتے اور گرہ لگاتے جاتے ہیں۔ عام طور پر جس پر جادو کرنا ہوتا ہے اس کے بال یا کوئی چیز حاصل کر کے اس پر یہ عمل کیا جاتا ہے۔
    وَمِن شَرِّ‌ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ﴿٥﴾
    اور حسد کرنے والے کی برائی سے بھی جب وہ حسد کرے۔ 
    حسد یہ ہے کہ حاسد، محسود سے زوال کی نعمت کی آرزو کرتا ہے چنانچہ اس سے بھی پناہ طلب کی گئی ہے کیونکہ حسد بھی ایک نہایت بری اخلاقی بیماری ہے جو نیکیوں کو کھا جاتی ہے۔


    [size=30]سورة الناس[/size]


    بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
    شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
    *اس کی فضیلت گزشتہ سورت کے ساتھ بیان ہو چکی ہے۔ ایک اور حدیث جس میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں بچھو ڈس گیا۔ نماز سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی اور نمک منگوا کر اس کے اوپر ملا اور ساتھ ساتھ (قل یٰٓایھا الکفرون قل ھو اللہ احد اور قل اعوذ برب الناس) پڑھتے رہے
    قُلْ أَعُوذُ بِرَ‌بِّ النَّاسِ ﴿١﴾
    آپ کہہ دیجئے! کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ میں آتا ہوں۔
    رب (پروردگار) کا مطلب ہے جو ابتدا سے ہی جب کہ انسان ابھی ماں کے پیٹ میں ہی ہوتا ہے اس کی تدبیرو اصلاح کرتا ہے، حتٰی کہ وہ بالغ عاقل ہو جاتا ہے پھر وہ یہ تدبیر چند مخصوص افراد کے لیے نہیں، بلکہ تمام انسانوں کے لیے کرتا ہے اور تمام انسانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ اپنی تمام مخلوقات کے لیے کرتا ہے ، یہاں صرف انسانوں کا ذکر انسان کے اس شرف افضل کے اظہار کے لیے ہے جو تمام مخلوقات پر اس کو حاصل ہے۔
    مَلِكِ النَّاسِ ﴿٢﴾
    لوگوں کے مالک کی 
    جو ذات، تمام انسانوں کی پرورش اور نگہداشت کرنے والی ہے، وہی اس لائق ہے کہ کائنات کی حکمرانی اور بادشاہی بھی اسی کے پاس ہو۔
    إِلَـٰهِ النَّاسِ ﴿٣﴾
    لوگوں کے معبود کی (پناہ میں) (١)۔
    اور جو تمام کائنات کا پروردگار ہو، پوری کائنات پر اسی کی بادشاہی ہو، وہی ذات اس بات کی مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور وہی تمام لوگوں کا معبود ہو۔ چنانچہ میں اسی عظیم و برتر ہستی کی پناہ حاصل کرتا ہوں۔
    مِن شَرِّ‌ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ﴿٤﴾
    وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے کے شر سے۔ (١)
    الوسواس، بعض کے نزدیک اسم فاعل الموسوس کے معنی میں ہے اور بعض کے نزدیک یہ ذی الوسواس ہے۔ وسوسہ، مخفی آواز کو کہتے ہیں، شیطان بھی نہایت غیر محسوس طریقوں سے انسان کے دل میں بری باتیں ڈال دیتا ہے اسی کو وسوسہ کہتے ہیں۔ الخناس (کھسک جانے والا یہ شیطان کی صفت ہے۔ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو یہ کھسک جاتا ہے اور اللہ کی یاد سے غفلت برتی جائے تو دل پر چھا جاتا ہے)
    الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ‌ النَّاسِ ﴿٥﴾
    جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔
    مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ﴿٦﴾
    (خواہ) وہ جن میں سے ہو یا انسان میں سے (١)
    یہ وسوسہ ڈالنے والوں کی دو قسمیں ہیں، شیاطین الجن کو تو اللہ تعالٰی نے انسانوں کو گمراہ کرنے کی قدرت دی ہے علاوہ ازیں ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان اس کا ساتھی ہوتا ہے جو اس کو گمراہ کرتا رہتا ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تو صحابہ کرام نے پوچھا کہ یارسول اللہ! کیا وہ آپ کے ساتھ بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! میرے ساتھ بھی ہے، لیکن اللہ نے اس پر میری مدد فرمائی ہے، اور میرا مطیع ہوگیا ہے مجھے خیر کے علاوہ کسی بات کا حکم نہیں دیتا (صحیح مسلم) اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف فرما تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آئیں رات کا وقت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑنے کے لیے ان کے ساتھ گئے۔ راستے میں دو انصاری صحابی وہاں سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا کر فرمایا کہ یہ میری اہلیہ، صفیہ بنت حیی، ہیں۔ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت ہمیں کیا بدگمانی ہو سکتی تھی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو ٹھیک ہے لیکن شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کچھ شبہ نہ ڈال دے۔(صحیح بخاری)
    دوسرے شیطان، انسانوں میں سے ہوتے ہیں جو ناصح، مشفق کے روپ میں انسانوں کو گمراہی کی تر غیب دیتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ شیطان جن کو گمراہ کرتا ہے یہ ان کی دو قسمیں ہیں، یعنی شیطان انسانوں کو بھی گمراہ کرتا ہے اور جنات کو بھی۔ صرف انسانوں کا ذکر تغلیب کے طور پر ہے، ورنہ جنات بھی شیطان کے وسوسوں سے گمراہ ہونے والوں میں شامل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ جنوں پر بھی قرآن میں"رجال "کا لفظ بولا گیا ہے (وَأَنَّهُ كَانَ رِ‌جَالٌ مِّنَ الْإِنسِ يَعُوذُونَ بِرِ‌جَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَ‌هَقًا ﴿٦﴾۔الجن) اس لیے وہ بھی ناس کا مصداق ہیں۔
    "تفسیر احسن البیان"



    ____________
    راشد صاحب
    شیطان Coolte10

      Current date/time is Fri Apr 26, 2024 6:19 pm