Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ


Join the forum, it's quick and easy

Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ

Rashid Ali Parchaway

Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

Jamal Abad Michni Parchaway.

Keywords

Affiliates


free forum

Forumotion on Facebook Forumotion on Twitter Forumotion on YouTube Forumotion on Google+


    یوکرائن کے مسئلے پر روس امریکا تنازع

    Admin
    Admin
    Admin
    Admin


    Posts : 527
    Join date : 09.10.2014

    یوکرائن کے مسئلے پر روس امریکا تنازع Empty یوکرائن کے مسئلے پر روس امریکا تنازع

    Post by Admin Sun May 03, 2015 4:35 am

    ’وکٹریا نو کووچ‘‘ یوکرائن کے سابق صدر تھے۔ انہوں نے نومبر 2013ء میں یورپی یونین کے ساتھ ایک Arsociation Agreement کرنا تھا۔ ان کی ساری پالیسیاں رُوس نوازرہی تھیں۔ جیسے ہی انہوں نے روس کے دبائو پر یہ معاہدہ مؤخر کیا تو ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ ملک دو واضح گروپوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک گروہ روس کی بجائے یورپین یونین کا حامی تھا۔ دوسرا روس کی طرف واضح جھکائو رکھتا تھا۔ اس خانہ جنگی نے زور پکڑا۔سرکاری عمارتوں کو آگ لگائی جانے لگی۔ مظاہرین پر سیدھی گولیاں ماری جانے لگیں۔ ’’وکٹریا نو کووچ‘‘ یوکرائن سے فرار ہو کر روس چلے گئے۔ روس نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ مشرقی یوکرائن کے ایک صوبے کریمیا پر قبضہ کر لیا۔ اس نے 16 مارچ کو وہاں ریفرنڈم کروایا۔ اپنے حق میں ووٹ کاسٹ کروائے۔ صوبے کا کلی کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ 
    امریکا اور یورپ حرکت میں آئے۔ انہوں نے روس کو G-8 ممالک سے نکال دیا۔ فوجی تعاون کو منقطع کردیا گیا۔ تجارتی منصوبے کٹھائی میں پڑگئے۔ روس نے ہر دبائو کا بھرپورجواب دیا۔ سارے مذاکرات ناکام ہو گئے۔ جنیوا میں ہونے والی گفت و شنید سے بھی کوئی مثبت پیش رفت ہونے کی اُمید کم ہے۔ اوباما نے باور کر وایا ہے: ’’چھوٹی قوموں کی قسمت کا فیصلہ بڑے ملکوں کے ہاتھ میں نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ ٹونی بلیر دُور کی کوڑی لایا ہے۔ اس نے یوکرائن کے مسئلے پر خاک ڈالنے اور مسلمان ’’دہشت گردوں‘‘ کی گو شمالی کرنے کا فرمان جاری کیا ہے۔ روس مگرمچھ کی طرح ایک خود مختار ملک کے ایک بڑے حصے کو ہضم کر گیا ہے۔ کوئی اس کا بال بیکا نہیں کر سکا۔ روس یوکرائن تنازعے اور یورپ امریکا کے اس بارے میں ردّعمل کے لیے ہمیں روس کی تاریخ کے جھروکے میں جھانکنا ہو گا۔ یہ گمنام ملک کس طرح دنیا کی ایک سپر پاور بنا۔ اس کے عروج، زوال اور پھر عروج کے پیچھے کون کون سے عوامل کار فرما ہیں؟
    ’’پیٹر دی گریٹ‘‘ روس کا سب سے بڑا بادشاہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ 1671ء میں پیدا ہوا۔ 1725ء میں فوت ہوا۔ اُس نے چھوٹی چھوٹی رُوسی ریاستوں کو باہم جوڑا اور ایک بڑا ملک بنادیا۔ اس کے دور میں آرتھوڈ وکس عیسائیت نے روس کے طول و عرض میں فروغ پایا۔ گرجے تعمیر ہوئے۔ لوگ کیتھولک ازم کے زیر اثر آگئے۔ روس کی بڑھتی فوجی طاقت نے یورپ کو اس کے قریب کردیا۔ خلافتِ عثمانیہ کے خلاف یہ ایک ہو گئے۔ لگ بھگ سو سال تک ترکوں کے خلاف جنگوں میں مشغول رہے۔ روسیوں کے منہ کو انسانی خون لگا تو شکار کرنے یورپ میںجا اُترے۔ انیسویں صدی کے آغاز میں انہوں نے پولینڈ پر قبضہ کرلیا۔ یہ وقت فرانسیسی جرنیل نپولین بوناپارٹ کے عروج کا تھا۔ اس نے روس پر لشکر کشی کی شکست کھائی۔ یوں روس کے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔ اس نے قرب و جوار کی چھوٹی بڑی ریاستیں ہڑپ کرنا شروع کر دیں۔ مسلم اکثریت رکھنے والے کئی شہر ملک اس کے زیر نگیں آگئے۔ اس نے یوکرائن پر قبضہ کرلیا۔ اس وقت برطانیہ اپنے عروج کو چھو رہا تھا۔ برطانیہ اور اتحادیوں نے یوکرائن کے اسی علاقے کریمیا میں ایک جنگ لڑی۔ بھاری جانی و مالی نقصان اٹھایا۔
    یوکرائن کے مسئلے پر روس امریکا تنازع Quotation
    امریکا اور یورپ اس لیے آبدیدہ ہیں کہ یورپ کو گیس مہیا کرنے والی پائپ لائنیں وہاں سے گزرتی ہیں۔بیشتر تجارت کے لیے بندر گاہیں یوکرائن میں ہیں۔


    جب بیسویں صدی کا پہلا سورج طلوع ہوا تو برطانوی سلطنت کا سورج غروب نہ ہوتا تھا۔ امریکا اور روس تیزی سے ترقی کرکے مضبوط ہوئے جارہے تھے۔ پہلی جنگ عظیم نے یورپ میں بربادی کا ایک سیلاب برپا کر دیا۔ دوسری جنگ عظیم نے متعدد یورپی ملکوں کو اپاہج بنا دیا۔ برطانیہ کا عروج تیزی سے زوال کا شکار ہوا۔ امریکا اور روس دنیا کی دو سب سے بڑی طاقتیںبن کر سامنے آگئے۔ روس سوویت یونین کہلانے لگا۔ سی آئی اے اور کے جی بی نے سرد جنگ کو ہوادی۔ دنیا دو گروپوں میں تقسیم ہو گی۔ یہ کمیونزم کی کامیابیوں کا دور تھا۔ مشرقی یورپ روس کے قبضے میں تھا۔ 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹا ریاستیں خود مختار ہو گئیں۔ سوویت یونین سمٹ کر روس رہ گیا۔ روس بدترین معاشی گرداب میں پھنس چکا تھا۔ ’’گوربا چوف‘‘ کے بعد ’’بوریلسن‘‘ بھی ملک کو اس بھنور سے نہ نکال پایا۔ 2001ء ’’ولادی میئر پوٹن‘‘ نے اقتدار سنبھالا۔اس نے روس کی تعمیر و ترقی میں بڑا رول پلے کیا۔ اس وقت روس رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کے پاس قدرتی گیس کے ذخیرے کسی بھی ملک کی نسبت زیادہ ہیں۔ اس کے پاس ایٹمی ہتھیار امریکا سے بھی زیادہ ہیں۔ کوئلے کی کانوں میں اس کا دنیا میں دوسرا نمبر ہے۔ یورنیم جیسی قیمتی دھات میں تیسرا، بجلی کی پیداوار میں چوتھا، لوہے کی کانوں میں اور فوجی قوت میں پانچواں، (باقی صفحہ5پر) 
    ڈالر کی ذخیرہ میں 515 ارب ڈالر کے ساتھ چھٹا، معیشت کی مضبوطی کے لحاظ سے ساتواں، تیل کے ذخائر اور افرادی قوت میں آٹھواں نمبر ہے۔ اس کی آبادی 14 کروڑ 35 لاکھ ہے۔ یورپ اپنا 30 فیصد پیٹرول، 25 فیصد گیس اور 20 فیصد کوئلہ اس سے خریدتا ہے۔ روس اپنا مال ہالینڈکو 14 فیصد، چین کو 6.4 فیصد، اٹلی کو 5.3 فیصد، جرمنی کو 4.5 فیصد، بیلارس کو 4 فیصد، پولینڈکو 3.7 فیصد، ترکی کو3 فیصد بیچتا ہے۔ درآمدات کی مد میں یہ چین سے 17 فیصد، جرمنی سے 12.2 فیصد، یوکرائن سے 5.7 فیصد، جاپان سے 5 فیصد اور امریکا سے 4.9 فیصد مال منگواتا ہے۔ 
    روس نے قریبی ملکوں سے روابط بڑھانے شروع کردیے ہیں۔ اس نے چین کو قدرتی گیس مہیا کرنے کے لیے ایک پائپ لائن کی تنصیب پر کام شروع کر رکھا ہے۔ یہ 2018ء تک فعال ہو جائے گی۔ یوں روس چین کو 38 ارب کیوبک میٹرگیس مہیا کرے گا۔ روس نے افغانستان سے تعلقات کا ایک بالکل نیا باب شروع کیاہے۔ یوں اس نے افغانستان میں اپنا اثر روسوخ بڑھانا شروع کردیا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تعلقات جو پہلے مضبوط تھے، اب مضبوط تر کیے جارہے ہیں۔ پاکستان میں اس سال جون میں ایک ریشین ایکسپو کی جا رہی ہے۔ رُوسی صری آرمی چیف نے روس کا دورہ کیا ہے۔ 3 کروڑ ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کا سودا طے پایا ہے۔ روس پہلے ہی عراق کو 4 کروڑ ڈالر کے ہتھیار بیچ چکا ہے۔ شام کے بشاراالاسد کے ساتھ روسی حکومت کی گہری دوستی اور لین دین صاف عیاں ہے۔ روس، جاپان، جنوبی کوریا، انڈونیشیا اور دوسرے ملکوں کے ساتھ روابط بڑھا رہا ہے۔ روس نے اپنی علیحدہ ہونے والی ریاستوں کا ایک اتحاد ’’Eurasian Customs Union‘‘ کے نام سے کھڑا کیا ہے۔ اپنی دولت کی چکا چوند دنیا کو دکھانے کے لیے اس نے حال ہی میں سوچی سرمائی اولمپکس منعقد کروائے۔ اس اسپورٹس ٹورنامنٹ پر روس نے 51 ارب ڈالر خرچ کیے۔ اس نے اس موقع پر کئی بااثر ملکوں کے سربراہان کو خصوصی طور پر مہمان بنایا۔ پیوٹن نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ ایک اسپورٹس میلا روس کے بین الاقوامی تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوا۔ 
    یوکرائن کے لیے امریکا اور یورپ اس لیے آبدیدہ ہیں کہ یورپ کو گیس مہیا کرنے والی پائپ لائنیں وہاں سے گزرتی ہیں۔ بحر اَسود کے ذریعے ہونے والی بیشتر تجارت کے لیے بندر گاہیں یوکرائن میں ہیں۔ یوکرائن پر کنٹرول یورپ اورا مریکا کے لیے عرصۂ دراز سے بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یورپ نے امریکی شہ پر اس ملک پر نواز شات کی بارشیں کیے رکھیں۔ بلا شرائط قرضے دیے جاتے رہے۔ انفرااسٹرکچر کی تعمیرات کے لیے یورپی کمپنیاں ہر دم متحرک رہیں۔ ان کا مفاد اس میں تھا کہ یوکرائن روس کے دائرہ اثر سے مکمل طور پر نکل آئے۔ روس نے تازہ صورت حال میں لوہا گرم دیکھتے ہوئے چوٹ لگائی۔ یوکرائن پر یورپی اثرورسوخ کا دھارا واپس پلٹ گیا۔ امریکا کے سیکرٹری خارجہ جان کیری مسلسل یوکرائن کے دورے کرتا رہا۔ وہاں کی بے بس حکومت کو حملے کے لیے شہ دیتا ہے۔ 
    مبصرین کی جچی تلی رائے ہے کہ روس دوبارہ ایک بہت بڑی عالمی طاقت بن رہا ہے۔ امریکا کے مقابلے میں روس ترقی کیے جارہا ہے۔ جبکہ امریکا پچھلے چار پانچ سالوں میں اقتصادی طور پر پسپا ہوئے جارہا ہے۔ اب تک وہ 18 ہزار ارب ڈالر قرض لے چکا ہے۔ قرضے کا یہ انبار ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق امریکا روزانہ کے حساب سے 2.65 ارب ڈالر کا مقروض ہو رہا ہے۔ امریکی مارکیٹ میں ہر ماہ 6 لاکھ افراد بے روزگاری کا شکار ہو رہے ہیں۔ امریکی اسٹیٹ ماہانہ 85 ارب ڈالر کے نئے نوٹ چھاپ رہا ہے۔ اس کے باوجود قومی خسارہ 1700 ارب ڈالر سے زیادہ ہو گیا ہے۔ امریکی معیشت کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 75 فیصد امریکی اپنی ریگولر ملازمت کے علاوہ پارٹ ٹائم جاب بھی کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود عام امریکی خاندان کی آمدنی میں 4.2 فیصد ماہانہ کے حساب سے کمی ہو رہی ہے۔ قوانین کی تبدیلی سے ہر دوسرا مریکی پنشن کا حق کھو بیٹھا ہے۔ اس بے یقینی کی صورت حال نے امریکی ریاستوں کو دست و گریبان کرنا شروع کردیا ہے۔ امریکی کانگرس کی کارروائی ایک مچھلی منڈی کا سا منظر پیش کرتی ہے۔ جیسے ہی اجلاس شروع ہوتا ہے۔ گرانٹوں پر جھگڑا اور توتکار شروع ہوجاتی ہے۔ ہر ریاست اپنے شہریوں کے لیے زیادہ سے زیادہ گرانٹ کی متقاضی ہوتی ہے۔ یوں یہ ریاستی نمایندے اپنے اپنے حلقۂ انتخاب میں عوام کو منہ دکھانے کے لیے چیختے چلاتے ہیں۔ ہاہا کا ر مچاتے ہیں۔ انہوں نے 87 ہزار امریکی فوجیوں کے لیے2014ء کے امداد بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ وہ فوجی ہیں جو امریکی جھنڈا اٹھائے مسلمان ملکوں میں غارت گری کرتے رہے ہیں۔ زمیں بوس ہوتا ہوا امریکا اب دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہو کر واپس جا رہا ہے۔ 
    امریکی عالمی تنہائی کا یہ عالم ہے کہ اکثر بڑے یورپی ملکوں نے درپردہ روس کے ساتھ تعلقات رکھے ہوئے ہیں۔ وہ بظاہر یوکرائن کے مسئلے پر شور مچا رہے ہیں۔ انہیں پورا احساس ہے اگر روس کے ساتھ ان کے روابط بالکل ختم ہو گئے تو وہ سستی گیس، پیٹرول، ڈیزل اور دوسری درآمدات سے محروم ہوجائیں گے۔ وہ کریمیا کو ہڑپ کر جانے پر روس کے ساتھ بگاڑنے پر راضی نہیں۔ خصوصاً جرمنی روس پر بھاری انحصار کی وجہ سے ہٹ کر ایک طرف ہوگیا ہے۔ امریکی جو عالمی شطرنج کے ماہر تھے اب شہ مات کھا رہے ہیں۔ نیٹو ممالک پہلے ہی اس کے جنگی جنون کی وجہ سے الگ ہو گئے تھے۔ یوں روس جو پندرہ بیس سال قبل ایک تباہ حال ملک تھا۔ اب دوبارہ خم ٹھونک کر میدان میں آگیا ہے۔ اگر ہم امریکا اور روس کی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں احساس ہوگا، ان ملکوں کی بے پناہ ترقی نے انہیں زبردست تنزلی کا شکار بھی کردیا۔ ان کی تعمیر میں ہی خرابی کی وہ صورت نظر آتی ہے جو رنگ بدل بدل کر سامنے آجاتی ہے۔ 
    روس کے مشہور کہانی کار ’’ٹائسٹائی‘‘ نے ایک کہانی لکھی تھی ’’دست ابلیس کے عنوان‘‘۔ یہ دو تین صفحوں پر مشتمل ہے۔ یہ نہ صرف روس بلکہ امریکا کی مجموعی صورت حال پر بھی پوری اترتی ہے: ’’کسی روسی گائوں میں ایک کاشتکار رہائش پذیر تھا۔ وہ سخت محنت کرتا، ہل چلاتا، بیچ بوتا اور فصل پکنے پر اپنا گزارہ کرتا تھا۔ ایک دن شیطان اور اس کا چیلا اس کے پاس سے گزرے۔ شیطان نے چیلے کو یہ ذمہ داری سونپی اس کاشتکار کے دل میں یہ لالچ ڈالو وہ ملحقہ زمینیں ہتھیالے۔ چیلاحیران ہوا۔ اعتراض کیا اس طرح تو یہ خوش حال ہوجائے گا۔ شیطان نے کہا ’’تم نہیں جانتے کیا ہوگا؟‘‘ سو کاشتکار زمینیںہتھیانے لگا۔ اس کی فصلوں میں اتنا اضافہ ہوا وہ بہت بڑا زمیندار بن گیا۔ فارغ البالی نے اسے شراب کی طرف راغب کیا۔ وہ ہر وقت نشے میں دھت رہتا۔ ایک رات وہ شراب میں دھت ہو کر گھر جارہا تھا کہ ایک نالی میں منہ کے بل جا گرا۔ شیطان اوراس کاچیلا وہاں سے گزرے۔ شیطان نے اسے رمز کی یہ بات سمجھائی کہ بے پناہ دولت مندی نے اس سے ہل چھین لیا۔ اسے غلاظت میں گرا دیا۔‘‘ امریکا ہو یا روس ان کی مادّی ترقی ہی ان کی بربادی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ ہوس کے غباروں میں زیادہ ہوا بھرنے کا انجام غبارے کے پھٹ جانے کی صورت نکلتا ہے۔


    ____________
    راشد صاحب
    یوکرائن کے مسئلے پر روس امریکا تنازع Coolte10

      Current date/time is Sat Apr 27, 2024 4:00 pm