Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ


Join the forum, it's quick and easy

Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ

Rashid Ali Parchaway

Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

Jamal Abad Michni Parchaway.

Keywords

Affiliates


free forum

Forumotion on Facebook Forumotion on Twitter Forumotion on YouTube Forumotion on Google+


    لائی فائی

    Admin
    Admin
    Admin
    Admin


    Posts : 527
    Join date : 09.10.2014

    لائی فائی Empty لائی فائی

    Post by Admin Fri Mar 27, 2015 12:36 pm

    روشنی کے ذریعے ڈیٹا کی تیزرفتار ترسیل
    انٹر نیٹ کے ابتدائی دور میں ڈیٹا کی ترسیل کے لیے تانبے کے تار کا استعمال کیا جاتا تھا۔ صارفین تک یہ سروس عام ٹیلی فون کے تاروں سے ڈائل اَپ کنکشن کے ذریعے پہنچتی تھی۔ اگرچہ یہ اُس زمانے میں بہت بڑی سہولت سمجھی جاتی تھی لیکن اگر اس کا موجودہ دور کے کمیونیکیشن کے ذرائع سے موازنہ کیا جائے تو شاید حیرت ہوگی کہ صارفین 64 کلوبائٹ کنکشن پر کس طرح کام کرتے ہوں گے۔ پھر تاروں کے ذریعے ہونے والے ڈیٹا کی ترسیل میں رکاوٹیں بھی بہت زیادہ تھیں۔ اسی لیے ٹیکنالوجی کے ماہرین ایک طرف تو ڈیٹا کی ترسیل کے لیے نئی کاپر کی متبادل قسم کی تاروں کا استعمال ممکن بنانے کی کوششوں میں لگ گئے تو دوسری طرف یہ کوششیں بھی کی جانے لگیں کہ عام صارف بغیر کسی کیبل کے انٹرنیٹ کا استعمال کرسکے، یعنی وائر لیس کمیونیکیشن۔ ان ہی کوششوں کے دوران انٹرنیٹ کے لیے فائبر آپٹکس کیبلز کا استعمال ممکن ہو ا تو نئے تیز رفتار انٹر نیٹ کنکشن کی سہولت ملنے لگی، جسے براڈ بینڈ کا نام دیا گیا۔ عام طور سے براڈ بینڈ کی کم سے کم رفتار دو ایم بی پی ایس (2Mbps) ہوتی ہے۔ دوسری طرف ماہرین کی وائر لیس کمیونیکیشن کی کوششیں بھی رنگ لانا شروع ہوئیں اور 1985 میں ایک نئی ٹیکنالوجی ’’ (IEEE) 802.11‘‘ متعارف ہوئی، جسے 1992 میں ’’وائی فائی‘‘ (Wi Fi)کا نام دیا گیا۔ 1996 میں اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے اداروں میں ’’وائرلیس لوکل ایریا نیٹ ورک‘‘ (WLAN) قائم ہونا شروع ہوگئے۔ 1999میں وائی فائی الائنس ( Wi-Fi Alliance) قائم ہوااورعام صارفین میں یہ ٹیکنالوجی 2000 کے بعد سے مقبول ہونا شروع ہوگئی۔ ابتدائی وائی فائی کنکشن صرف 60 میٹر کی رینج تک ہی محدود تھا۔ تاہم، اب اس کے ایک ہاٹ اسپاٹ کی رینج کلومیٹرز تک پھیلی ہوئی ہے، جب کہ دنیا بھر میں لاتعداد ہاٹ اسپاٹ موجود ہیں، جن سے عام صارفین منسلک رہتے ہیں۔ وائر لیس کمیونیکیشن کے میدان میں 1994 کے دوران ایرکسَن کمپنی نے ایک نئی وائر لیس ٹیکنالوجی ’’بلو ٹوتھ‘‘ (Blutooth) کے نام سے متعارف کرائی، یہ ٹیکنالوجی آج بھی استعمال میں ہے لیکن اس کا دائرہ کار کم ہونے کی وجہ سے اسے محدود پیمانے پر ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آج کل اس کا سب سے زیادہ استعمال وائر لیس کمپیوٹر کی بورڈز، مائوس، ایک موبائل فون سے دوسرے میں ڈیٹا منتقلی کے لیے ہورہا ہے۔ 1990 کے بعد ٹیلی کمیونیکشن کی میدان میں اُس وقت انقلاب آگیا جب سیلیولر فونز کا استعمال عام ہونا شروع ہوا۔ ابتدائی دور کی موبائل فونز ’’ایڈوانس موبائل فونز سسٹم‘‘ (Advanced Mobile Phone System) یعنی ’’AMPS‘‘ کے تحت کام کرتے تھے۔ جس سے صرف ٹیلی فون کالز ہی کی جاسکتی تھیں۔تاہم، 1991 میں ’’جی ایس ایم‘‘ (Global System for Mobile) کے متعارف ہونے کے بعد موبائل فونز سے کالز کے علاوہ ڈیٹا کی دیگر طریقوں سے ترسیل بھی ممکن ہوگئی۔ 2001 میں موبائل فونز سے انٹرنیٹ کا استعمال کرنے کے لیے ’’جنرل پیکٹ ریڈیو سروس‘‘ (GPRS) متعارف کرائی گئی، جو صرف جی ایس ایم فونز پر ہی کام کرتی تھی۔ اگرچہ وائرلیس کمیونیکیشن میں کے میدان میں یہ بڑی کام یابی تھی، لیکن ماہرین اس سے بہتر کی تلاش آج بھی مصروف ہیں۔ آج کل انٹر نیٹ سروس دو طریقوں سے عام استعمال ہورہی ہے۔ ایک میں تو گھروں تک فائبر آپٹکس یا کاپر کے تار کے ذریعے ’’ڈی ایس ایل براڈ بینڈ‘‘ (Digital Subscriber Line) کنکشن پہنچایا جاتا ہے، جسے وائی فائی ’’اے ڈی ایس ایل‘‘ (Asymmetric Digital Subscriber Line) موڈیم سے منسلک کردیا جاتا ہے اور پورا گھر ’’ہاٹ اسپاٹ‘‘ بن جاتا ہے۔ دوسرے طریقے میں سروس فراہم کرنے والے صارف کو ’’وائی فائی یو ایس بی ڈونگل‘‘ فراہم کرتے ہیں، جنہیں کسی بھی لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ کے یو ایس بی پورٹ میں لگا کر وائرلیس انٹرنیٹ کنیکیشن استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ ان دونوں طریقوں میں وائی فائی ٹیکنالوجی ہی استعمال ہوتی ہے، جس میں ڈیٹا ترسیل کی رفتار ایک میگا بائٹس پر سیکنڈ سے لے کر 9 ایم بی پی ایس تک ہی ممکن ہے۔ انفارمیشن ٹینالوجی کے ماہرین کئی برسوں سے موجودہ دور کے وائی فائی کنیکشن سے زیادہ تیز رفتار ذریعے کی تلاش میں ہیں۔ اس سلسلے میں کئی تجربات کئی گئے ہیں۔حال ہی میں برطانوی ماہرین نے روشنی کی مدد سے دس گیگا بِٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا منتقل کرنے کا کام یاب تجربہ کیا ہے۔ انٹرنیٹ پر بغیر تاروں کے معلومات منتقل کرنے والی یہ ٹیکنالوجی ’’لائی فائی‘‘ (Li Fi) کے نام سے متعارف ہوئی ہے۔ ماہرین نے مائیکرو ایل ای ڈی بلب کی مدد سے روشنی کے ہر بنیادی رنگ کے ذریعے 3.5 گیگا بِٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا منتقل کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سفید روشنی کی ایک ہی شعاع سے دس گیگا بِٹ فی سیکنڈ تک ڈیٹا منتقل کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لائی فائی سستی ٹیکنالوجی ہے، جس میں مخصوص ایل ای ڈی بلبوں کے ذریعے انتہائی کم خرچ پر انتہائی تیز رفتار انٹرنیٹ فراہم کیا جا سکے گا۔’’الٹرا پیرلل وزِبل لائٹ کمیونیکیشنز پروجیکٹ‘‘ (Ultra-parallel visible light communications project) یونیورسٹی آف ایڈنبرا، سینٹ اینڈروز یونیورسٹی، اسٹارتھکلائڈ یونیورسٹی، آکسفرڈ یونیورسٹی اور کیمبرج یونیورسٹی کی مشترکہ کوشش ہے،جس کے اخراجات انجنیئرنگ اینڈ فیزیکل سائنسز ریسرچ کونسل اٹھا رہی ہے۔ اس پروجیکٹ پر کام کرنے والے پروفیسر ہیرلڈ ہاس کا کہنا ہے کہ جیسے ایک شاور میں پانی، دھاروں میں علیحدہ کیاجاسکتا ہے، اسی طرح ہم روشنی کو بھی دھاروں میں علیحدہ کر سکتے ہیں۔’’Orthogonal frequency-division multiplexing‘‘ (O-OFDM) نامی تکنیک کے ذریعے محققین یہ بلب ایک سیکنڈ میں لاکھوں مرتبہ آن آف کیا جاسکتا ہے، اور یہ عمل ڈیجیٹل معلومات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔کمپیوٹروں میں استعمال ہونے والے بائنری نظام میں یہ سگنلز صفر اور ایک کے مترادف ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اسی برس کے آغاز میں ایک جرمن ادارے نے ایک گیگا بِٹ فی سیکنڈ تک معلومات منتقل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔تاہم، اسی ماہ چینی سائنس دانوں نے مائیکرو چپ والے ایسے ایل ای ڈی بلب تیار کیے تھے جو 150 میگا بِٹ فی سیکنڈ تک ڈیٹا منتقل کر سکتے ہیں اور ایک بلب چار کمپیوٹروں کو انٹرنیٹ کنکشن فراہم کر سکتا ہے۔2011 میں پرو فیسر ہاس نے ایک ایل ای ڈی بلب کی مدد سے ایک ہائی ڈیفنیشن وڈیو ایک کمپیوٹر تک پہنچانے کا کام یاب تجربہ کیا تھا۔ انہوں نے ’’لائٹ فیڈیلٹی‘‘ یا لائی فائی (Li Fi)کے الفاظ استعمال کیے اور انہوں نے اسی ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے پیور وی ایل سی (VLC) نامی ایک کمپنی بھی بنائی۔لائی فائی موجودہ ریڈیو وائی فائی نظام سے مالی اور تونائی، دونوں لحاظ سے کم خرچ ہوگی۔ نظر آنے والی روشنی الیکٹرومگنیٹک شعاعوں کا ایک حصّہ اور ریڈیو کی رینج سے دس ہزار گنا وسیع تر ہیں۔ روشنی کی مدد سے ڈیٹا منتقل کرنے کا ایک اور فائدہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ایل ای ڈی ٹرانسمیٹرز کی مدد سے عمارتوں میں مستقل انٹرنیٹ فراہم کیا جا سکتا ہے۔روایتی وائی فائی راؤٹرز میں ایک مسئلہ یہ پایا جاتا ہے کہ فاصلہ کے ساتھ ساتھ ان کا سگنل کم زور ہوتا جاتا ہے، جس کی وجہ سے انٹرنیٹ کی فراہمی کا تسلسل متاثر ہوتا ہے۔ اس مسئلے پر لائی فائی کی مدد سے حل کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر ہاس کا کہنا ہے کہ روشنی کی دیواروں میں سے نہ گزرنے کے باعث وی ایل سی ٹیکنالوجی ان کے نیٹ ورکس کو زیادہ محفوظ بنا دے گی۔



    روشنی کے ذریعے ڈیٹا کی تیزرفتار ترسیل
    انٹر نیٹ کے ابتدائی دور میں ڈیٹا کی ترسیل کے لیے تانبے کے تار کا استعمال کیا جاتا تھا۔ صارفین تک یہ سروس عام ٹیلی فون کے تاروں سے ڈائل اَپ کنکشن کے ذریعے پہنچتی تھی۔ اگرچہ یہ اُس زمانے میں بہت بڑی سہولت سمجھی جاتی تھی لیکن اگر اس کا موجودہ دور کے کمیونیکیشن کے ذرائع سے موازنہ کیا جائے تو شاید حیرت ہوگی کہ صارفین 64 کلوبائٹ کنکشن پر کس طرح کام کرتے ہوں گے۔ پھر تاروں کے ذریعے ہونے والے ڈیٹا کی ترسیل میں رکاوٹیں بھی بہت زیادہ تھیں۔ اسی لیے ٹیکنالوجی کے ماہرین ایک طرف تو ڈیٹا کی ترسیل کے لیے نئی کاپر کی متبادل قسم کی تاروں کا استعمال ممکن بنانے کی کوششوں میں لگ گئے تو دوسری طرف یہ کوششیں بھی کی جانے لگیں کہ عام صارف بغیر کسی کیبل کے انٹرنیٹ کا استعمال کرسکے، یعنی وائر لیس کمیونیکیشن۔ ان ہی کوششوں کے دوران انٹرنیٹ کے لیے فائبر آپٹکس کیبلز کا استعمال ممکن ہو ا تو نئے تیز رفتار انٹر نیٹ کنکشن کی سہولت ملنے لگی، جسے براڈ بینڈ کا نام دیا گیا۔ عام طور سے براڈ بینڈ کی کم سے کم رفتار دو ایم بی پی ایس (2Mbps) ہوتی ہے۔ دوسری طرف ماہرین کی وائر لیس کمیونیکیشن کی کوششیں بھی رنگ لانا شروع ہوئیں اور 1985 میں ایک نئی ٹیکنالوجی ’’ (IEEE) 802.11‘‘ متعارف ہوئی، جسے 1992 میں ’’وائی فائی‘‘ (Wi Fi)کا نام دیا گیا۔ 1996 میں اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے اداروں میں ’’وائرلیس لوکل ایریا نیٹ ورک‘‘ (WLAN) قائم ہونا شروع ہوگئے۔ 1999میں وائی فائی الائنس ( Wi-Fi Alliance) قائم ہوااورعام صارفین میں یہ ٹیکنالوجی 2000 کے بعد سے مقبول ہونا شروع ہوگئی۔ ابتدائی وائی فائی کنکشن صرف 60 میٹر کی رینج تک ہی محدود تھا۔ تاہم، اب اس کے ایک ہاٹ اسپاٹ کی رینج کلومیٹرز تک پھیلی ہوئی ہے، جب کہ دنیا بھر میں لاتعداد ہاٹ اسپاٹ موجود ہیں، جن سے عام صارفین منسلک رہتے ہیں۔ وائر لیس کمیونیکیشن کے میدان میں 1994 کے دوران ایرکسَن کمپنی نے ایک نئی وائر لیس ٹیکنالوجی ’’بلو ٹوتھ‘‘ (Blutooth) کے نام سے متعارف کرائی، یہ ٹیکنالوجی آج بھی استعمال میں ہے لیکن اس کا دائرہ کار کم ہونے کی وجہ سے اسے محدود پیمانے پر ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آج کل اس کا سب سے زیادہ استعمال وائر لیس کمپیوٹر کی بورڈز، مائوس، ایک موبائل فون سے دوسرے میں ڈیٹا منتقلی کے لیے ہورہا ہے۔ 1990 کے بعد ٹیلی کمیونیکشن کی میدان میں اُس وقت انقلاب آگیا جب سیلیولر فونز کا استعمال عام ہونا شروع ہوا۔ ابتدائی دور کی موبائل فونز ’’ایڈوانس موبائل فونز سسٹم‘‘ (Advanced Mobile Phone System) یعنی ’’AMPS‘‘ کے تحت کام کرتے تھے۔ جس سے صرف ٹیلی فون کالز ہی کی جاسکتی تھیں۔تاہم، 1991 میں ’’جی ایس ایم‘‘ (Global System for Mobile) کے متعارف ہونے کے بعد موبائل فونز سے کالز کے علاوہ ڈیٹا کی دیگر طریقوں سے ترسیل بھی ممکن ہوگئی۔ 2001 میں موبائل فونز سے انٹرنیٹ کا استعمال کرنے کے لیے ’’جنرل پیکٹ ریڈیو سروس‘‘ (GPRS) متعارف کرائی گئی، جو صرف جی ایس ایم فونز پر ہی کام کرتی تھی۔ اگرچہ وائرلیس کمیونیکیشن میں کے میدان میں یہ بڑی کام یابی تھی، لیکن ماہرین اس سے بہتر کی تلاش آج بھی مصروف ہیں۔ آج کل انٹر نیٹ سروس دو طریقوں سے عام استعمال ہورہی ہے۔ ایک میں تو گھروں تک فائبر آپٹکس یا کاپر کے تار کے ذریعے ’’ڈی ایس ایل براڈ بینڈ‘‘ (Digital Subscriber Line) کنکشن پہنچایا جاتا ہے، جسے وائی فائی ’’اے ڈی ایس ایل‘‘ (Asymmetric Digital Subscriber Line) موڈیم سے منسلک کردیا جاتا ہے اور پورا گھر ’’ہاٹ اسپاٹ‘‘ بن جاتا ہے۔ دوسرے طریقے میں سروس فراہم کرنے والے صارف کو ’’وائی فائی یو ایس بی ڈونگل‘‘ فراہم کرتے ہیں، جنہیں کسی بھی لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ کے یو ایس بی پورٹ میں لگا کر وائرلیس انٹرنیٹ کنیکیشن استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ ان دونوں طریقوں میں وائی فائی ٹیکنالوجی ہی استعمال ہوتی ہے، جس میں ڈیٹا ترسیل کی رفتار ایک میگا بائٹس پر سیکنڈ سے لے کر 9 ایم بی پی ایس تک ہی ممکن ہے۔ انفارمیشن ٹینالوجی کے ماہرین کئی برسوں سے موجودہ دور کے وائی فائی کنیکشن سے زیادہ تیز رفتار ذریعے کی تلاش میں ہیں۔ اس سلسلے میں کئی تجربات کئی گئے ہیں۔حال ہی میں برطانوی ماہرین نے روشنی کی مدد سے دس گیگا بِٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا منتقل کرنے کا کام یاب تجربہ کیا ہے۔ انٹرنیٹ پر بغیر تاروں کے معلومات منتقل کرنے والی یہ ٹیکنالوجی ’’لائی فائی‘‘ (Li Fi) کے نام سے متعارف ہوئی ہے۔ ماہرین نے مائیکرو ایل ای ڈی بلب کی مدد سے روشنی کے ہر بنیادی رنگ کے ذریعے 3.5 گیگا بِٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا منتقل کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سفید روشنی کی ایک ہی شعاع سے دس گیگا بِٹ فی سیکنڈ تک ڈیٹا منتقل کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لائی فائی سستی ٹیکنالوجی ہے، جس میں مخصوص ایل ای ڈی بلبوں کے ذریعے انتہائی کم خرچ پر انتہائی تیز رفتار انٹرنیٹ فراہم کیا جا سکے گا۔’’الٹرا پیرلل وزِبل لائٹ کمیونیکیشنز پروجیکٹ‘‘ (Ultra-parallel visible light communications project) یونیورسٹی آف ایڈنبرا، سینٹ اینڈروز یونیورسٹی، اسٹارتھکلائڈ یونیورسٹی، آکسفرڈ یونیورسٹی اور کیمبرج یونیورسٹی کی مشترکہ کوشش ہے،جس کے اخراجات انجنیئرنگ اینڈ فیزیکل سائنسز ریسرچ کونسل اٹھا رہی ہے۔ اس پروجیکٹ پر کام کرنے والے پروفیسر ہیرلڈ ہاس کا کہنا ہے کہ جیسے ایک شاور میں پانی، دھاروں میں علیحدہ کیاجاسکتا ہے، اسی طرح ہم روشنی کو بھی دھاروں میں علیحدہ کر سکتے ہیں۔’’Orthogonal frequency-division multiplexing‘‘ (O-OFDM) نامی تکنیک کے ذریعے محققین یہ بلب ایک سیکنڈ میں لاکھوں مرتبہ آن آف کیا جاسکتا ہے، اور یہ عمل ڈیجیٹل معلومات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔کمپیوٹروں میں استعمال ہونے والے بائنری نظام میں یہ سگنلز صفر اور ایک کے مترادف ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اسی برس کے آغاز میں ایک جرمن ادارے نے ایک گیگا بِٹ فی سیکنڈ تک معلومات منتقل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔تاہم، اسی ماہ چینی سائنس دانوں نے مائیکرو چپ والے ایسے ایل ای ڈی بلب تیار کیے تھے جو 150 میگا بِٹ فی سیکنڈ تک ڈیٹا منتقل کر سکتے ہیں اور ایک بلب چار کمپیوٹروں کو انٹرنیٹ کنکشن فراہم کر سکتا ہے۔2011 میں پرو فیسر ہاس نے ایک ایل ای ڈی بلب کی مدد سے ایک ہائی ڈیفنیشن وڈیو ایک کمپیوٹر تک پہنچانے کا کام یاب تجربہ کیا تھا۔ انہوں نے ’’لائٹ فیڈیلٹی‘‘ یا لائی فائی (Li Fi)کے الفاظ استعمال کیے اور انہوں نے اسی ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے پیور وی ایل سی (VLC) نامی ایک کمپنی بھی بنائی۔لائی فائی موجودہ ریڈیو وائی فائی نظام سے مالی اور تونائی، دونوں لحاظ سے کم خرچ ہوگی۔ نظر آنے والی روشنی الیکٹرومگنیٹک شعاعوں کا ایک حصّہ اور ریڈیو کی رینج سے دس ہزار گنا وسیع تر ہیں۔ روشنی کی مدد سے ڈیٹا منتقل کرنے کا ایک اور فائدہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ایل ای ڈی ٹرانسمیٹرز کی مدد سے عمارتوں میں مستقل انٹرنیٹ فراہم کیا جا سکتا ہے۔روایتی وائی فائی راؤٹرز میں ایک مسئلہ یہ پایا جاتا ہے کہ فاصلہ کے ساتھ ساتھ ان کا سگنل کم زور ہوتا جاتا ہے، جس کی وجہ سے انٹرنیٹ کی فراہمی کا تسلسل متاثر ہوتا ہے۔ اس مسئلے پر لائی فائی کی مدد سے حل کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر ہاس کا کہنا ہے کہ روشنی کی دیواروں میں سے نہ گزرنے کے باعث وی ایل سی ٹیکنالوجی ان کے نیٹ ورکس کو زیادہ محفوظ بنا دے گی۔



    ____________
    راشد صاحب
    لائی فائی Coolte10


      Current date/time is Sun Apr 28, 2024 9:54 am