Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ


Join the forum, it's quick and easy

Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ

Rashid Ali Parchaway

Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

Jamal Abad Michni Parchaway.

Keywords

Affiliates


free forum

Forumotion on Facebook Forumotion on Twitter Forumotion on YouTube Forumotion on Google+


    مداخلہ کا مختصر تعارف

    Admin
    Admin
    Admin
    Admin


    Posts : 527
    Join date : 09.10.2014

    مداخلہ کا مختصر تعارف Empty مداخلہ کا مختصر تعارف

    Post by Admin Sun Oct 19, 2014 8:07 am

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
    مداخلہ کا مختصر تعارف
    تالیف :۔ڈاکٹر عبدالرزاق بن خلیفہ الشائجی اردو قالب :۔ایوب گوہر  
    ابتدائیہ
    حق و باطل کا معرکہ ازل سے جاری ہے اور اسے ابد تک جاری رہنا ہے ۔جہاں ایمان کی داستانیں رقم کرنے والے ہمیشہ اسلامی تاریخ کو اپنی قربانیوں سے رقم کرتے آئے ہیں وہیں نفاق و غدر کی داستانیں بھی رقم ہوئی ہیں۔اسلامی تاریخ اگر کبھی ابو بکر وعمر کے پیروکاروں سے خالی نہیں ہوئی تو اسی تاریخ میں ابن اُبی کے متبعین بھی ہمیشہ پائے گئے ہیں ۔معرکہ ایمان و کفر کی تاریخ میں درج ذیل کردار پائے گئے :
    آگے بڑھ کر کفر سے نبرد آزما ہونے والے ،جنہیں اپنے دین کے حق اور دشمن کے باطل ہونے پر یقین حاصل ہوتا ہے ۔
    کفر کے ہم نوالہ و پیالہ جو ہمیشہ اہل اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھوپنتے ہیں ۔
    شک و شبہ میں پڑے لوگ جنہیں ایک طرف حق کھینچتا ہے تو دوسری طرف باطل ،جو کبھی فیصلہ ہی نہیں کر پاتے ۔
    تاریخ میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی کہ اہل حق ابتداء ہی سے لوگوں کی ہمدردیاں لینے میں کامیاب ہوگئے ہوں ! ہمیشہ کفر سے جب بھی کوئی ٹکرایا ہے اُسے اپنوں نے ہی گرانے کی کوشش کی ہے ،اپنے ہی اس کے خلاف پروپیگنڈے کرتے ہیں ،انہیں بدنام کر نے کے لیے طرح طرح کے القابات سے نوازتے ہیں ! انہیں امت کا دشمن اور بدخواہ بتلاتے ہیں ۔مگر عجیب بات یہ ہے کہ
    تاریخ گواہ ہے کہ یہ اہل حق صبر استقامت سے اپنے راستے پر گامزن رہتے ہیں ،گالیوں اور پروپیگنڈوں کا جواب وہ زبان سے نہیں راہ خدا میں اپنا لہو بہاکر دیتے ہیں !دنیا ان کی سچائی کو اُن کی باتوں سے نہیں ان کے عمل سے جانتی ہے ! اُن پر ظلم ڈھانے والے دیکھتے ہیں کہ جنہیں وہ دشمن امت بتلاتے تھے وہ انہی کے دفاع میں جانیں دیتے نظر آتے ہیں ! وہ ان کے الزامات پر غضب ناک ہونے کی بجائے دکھی دل سے اللہ سے ہی التجا کرتے ہیں کہ اے مالک ! ہمارے ان بھائیوں کے دل نرم فرما ! انہیں حق کا ساتھی بنا !
    پھر تاریخ جو انہیں کبھی تکفیری ،خارجی ،فسادی ،جلد باز کے نام سے جانتی تھی وہ انہیں اس امت کا ہیرو ،امت کی قیادت ،خلافت کی بنیاد رکھنے والے اسلامی ہیروز کے نام سے ذکر کرتی ہے اور خلق خدا ان پر سلام بھیجتی ہے !
    تاریخ ہمیشہ اسی حقیقت کو دہراتی ہے ،عقلمند وہ ہوتے ہیں جو اپنے دور میں جاری اس کشمکش میں اہل حق کو جانتے اورپھر ان کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں اور بد بخت باطل کے ہم رکاب بنتے ہیں جبکہ جاہل شک اور بے یقینی میں اس جنگ سے لا تعلق رہتے ہیں۔
    اسلامی تاریخ میں صلاح الدین ایوبی کی تحریک کو دیکھ لیں جنہیں آج امت ایک قائد اور لیڈر کی حیثیت سے جانتی ہے ۔وہ عزت جو آج امت اس قائد کو دے رہی ہے یہ عزت انہیں اپنی زندگی میں نہیں ملی تھی خصوصاً اپنی تحریک کے ابتداء میں ۔انہیں وہی طعنے سننے پڑے تھے جو آج قیام ِخلافت کی بات کرنے والوں کوسننے پڑتے ہیں ،انہیں بھی ایجنٹ کہا گیا ،مسلمانوں کی ذلت و بربادی کا ذمہ دار قرار دیا گیامگروہ صبر و استقامت سے راہِ جہاد پر ڈٹے رہے اور اللہ نے انہیں اپنی نصرت و تائید سے نوازا تو یہ سارے شبہات ختم ہو گئے ،ساری باتیں مٹی میں مل گئی،سب الزامات ہوا میں اڑ گئے ۔تاریخ نے ان کے مخالفین کو غداران ِ امت ،میر جعفر و صادق کے نام سے یاد کیا اور ان کے ساتھیوں کو طائفہ منصورہ کا عنوان دیا ۔
    یہی کچھ ابن تیمیہ کے ساتھ ہوا ،یہی کہانی امام محمد بن عبدالوہاب کے ساتھ دہرائی گئی اور یہی کچھ آج اہل حق کے ساتھ ہو رہا ہے ۔سو مبارک ہو ! اے اہل توحید و جہاد مبارک ہو کہ تم صلاح الدین کے بیٹے ہو ،مبارک ہو کہ تم ابن تیمیہ اور ابن عبدالوہاب کے پیروکار ہو! مبارک ہو کہ تم راہ وفا کے راہی ہو !
    اس مختصر تمہید کے بعد ! اس مضمون کا مقصد ان لوگوں کو بے نقاب کرنا ہے جو اپنے سلف کے راستے پر چلتے ہوئے طائفہ منصورہ کے چہرے کو گدلا نے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔روس کے خلاف جہاد ایک ایسا مبارک جہاد تھا کہ اس کےبعد امت پر چھائی ذلت سمٹنے لگی ! دین کو سیاست سے جدا کردینے کا مغربی خواب چکنا چور ہونے لگا ! اسی جہاد کے نتیجے میں امت کو ایسے علماء و قائدین ملے جو اس امت کو پھر سے قیام خلافت ،نفاذ شریعت ،غلبہ توحید اور سنت رسول ﷺ سے محبت کا درس دینے لگے ۔ اس بابرکت جہاد کے نتیجے میں جہاں مسلمان علمی ،فکری اور عملی میدان میں کفر کی جکڑ بندیوں سے آزادیاں حاصل کرنے لگے اور کفر کے نظاموں سے نجات پانے کے لیے فکر مند ی پھیلنے لگی وہیں ایسے طبقے کا وجود بھی یقیناً ایک لازمی امر تھا جو بیداری کی اس تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا اور کفر کے نظاموں کی بقاء کی کوشش میں شعوری یا غیر شعوری طور پر شامل ہوتا ۔چونکہ اس جہاد میں علم وقیادت کے میدان میں بنیادی کردار عالم عرب کے علماء و مجاہدین کا تھا اس لیے ان کی دشمنی پر مبنی فکر بھی وہیں پروان چڑھی ۔ نائن الیون کے بعد جب یہ جہاد دنیا کے کونے کونے میں پھیلا اس بات سے قطع نظر کہ نائن الیون کا ذمہ دار کون تھا اور اس کی شرعی حیثیت کیا تھی؟۔بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ اس واقعے کے بعد کفر ہر جگہ پر اہل اسلام کو نشانہ بنانے لگا اور ہر جگہ قیام ِخلافت اورغلبہ توحیدو سنت کا آوازہ بلند ہونے لگا ۔اس صورت حال میں عقیدہ و جہاد دشمن یہ منہج بھی ہر جگہ سر اٹھانے لگا ۔اسی صورت حال سے وطن عزیز پاکستان کے اسلام پسند طبقے کو واسطہ پڑ رہا ہے ۔اگر چہ یہاں یہ مبنی بر تعصب و نفرت منہج نہایت قلیل لوگوں کو متاثر کر پایا ہے مگر خطرہ ہے کہ عام سادہ لوگ اس کا شکار نہ ہوجائیں ۔اس منہج کی خطرناکی کی بنیادی وجہ اس کا سلفیت جیسے مبارک مشن اور عظیم نام کی آڑ لینا اور اپنے بغض کو سلفیت کے نام پر پروان چڑھانا ہے ۔
    یاد رہے یہ ایک فقط جہاد دشمن منہج نہیں بلکہ یہ درحقیقت دین کی نہایت اہم اساسیات پر ہاتھ صاف کرنے والی فکر ہے اسی لیے عالم عرب کے بے شمار اہل علم نے جو شاید اہل جہاد سے ان کی کچھ پالیسیوں پر کچھ اختلاف بھی رکھتے ہوں ان سب نے اس منہج کے باطل ہونے کو نہایت واضح انداز میں بیان فرمایا ہے ۔ان علماء میں سعودی عرب لجنۃ کبار علماء کی سرکردہ شخصیات جیسے علامہ ابن باز ،علامہ ابن عثیمین ،شیخ صالح الفوزان ،شیخ بکر ابو زید ،شیخ ابن جبرین ،علامہ ابن قعود،صالح آل شیخ جیسے اہل علم بھی شامل ہیں ۔اس منہج کو عام طور پر اس کی سرکردہ شخصیت شیخ ربیع بن ہادی المدخلی کی نسبت سے مدخلی منہج یا مداخلہ کہا جاتا ہے ،اسی طرح ان کے ایک اور بزرگ شیخ امان اللہ جامی کی نسبت سے اسے جامیہ کا نام دیا جاتا ہے ۔(اگرچہ کہ اس فکر کو مکمل طور پر ان دونوں بزرگوں کے ذمے تھوپنا بھی درست نہیں ،اس میں بہت سے عوامل اور محرکات ہیں جنہیں یہاں بیان کرنے کا مقام نہیں)۔پاکستان میں یہ منہج سلفی طبقے میں بڑی تیزی سے پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اس پر تفصیلی رد تو وقتاً فوقتاً ہم کریں گے مگر یہاں اس مضمون میں ہم اس منہج کے بنیادی اصولوں کو نہایت اختصار سے قارئین کے سامنے رکھتے ہیں ۔یہ مضمون عالم عرب کے ایک نامور عالم و مفکر ڈاکٹر عبدالرزاق بن خلیفہ الشائجی کا ہے جسے ہم قارئین کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔
    ایوب گوہر






    سلفیت کے دعویداروں (مداخلہ )کے بنیادی اصول
    پہلا اصول :۔یہ داعیان ِ دین کے ساتھ معاملہ کرنے میں خوارج ہیں جبکہ حکام کے حق میں یہ مرجئہ ہیں ۔اسلامی جماعتوں سے سلوک کرتے ہوئے یہ رافضہ ہیں جبکہ یہود ،نصاریٰ اور کفار کے حق میں یہ قدریہ ہیں ۔
    یہ اصول اس فکر کا خلاصہ اور اس کے تمام اصولوں کی بنیاد ہے ،اس کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں :
    (الف) یہ داعیان ِ دین کے ساتھ معاملہ کرنے میں خوارج ہیں۔چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر ان کی تکفیر کرتے ہیں اور انہیں اسلام سے خارج کرتے ہوئے ان کے خون بہانے کو حلال کرتے اور ان سے قتل و قتال کو جائز قرار دیتے ہیں ۔
    تشریح
    مداخلہ سید قطب ،شیخ اسامہ بن لادن رحمہمااللہ اوردیگر علماء جو ان سے محبت رکھتے ہیں ،اسی طرح دیگر علماء جن میں بعض اخطاء میں ہو سکتی ہیں کے ساتھ کفار سے بدتر سلوک کرتے ہیں ،انہیں نہایت وحشی اور گندی زبان سے یاد کرتے ہیں ۔اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو یہ لوگ مختلف القاب دیتے اور انہیں بدنام کرتے ہیں کچھ القاب ملاحظہ فرمائیں :
    بعض تسمياتهم لخصومهم :
    1-التبليغية ( جماعة التبليغ )
    2-القطبية ( سيد قطب)
    3-العرعورية (عدنان عرعور)
    4-السرورية( بن سرور)
    5- الاخونية ( الاخوان المسلمون)
    6-العقلانية
    7-الخوارج
    8- الجهادية ( أي مجاهد في سبيل الله )
    (ب )حکام کے حق میں یہ مرجئہ ہیں۔اُن کے لیے محض زبان سے لا الہ الا اللہ کہناہی کافی سمجھتے ہیں اور عمل کو لازم نہیں قرار دیتے ہیں ،چنانچہ حکمرانوں کے حوالے سے ان کے نزدیک عمل ایمان سے خارج ہے ۔
    تشریح
    یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ سے حکمرانون کا پسندیدہ طبقہ رہا ہے کیونکہ یہ حکمران چاہے وہ کفر اکبر اور شرک اکبر کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو اُس پر تنقید کو برداشت نہیں کرتے ۔اس کی اطاعت کو واجب قرار دیتے ہیں ،اُس سے صادر ہونے والے یہ کفر یہ عمل کی تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لیے شرعی دلائل کو توڑ موڑ کر پیش کرتے ہیں ۔ان کے نزدیک کسی بندے کا حاکم ہونا تنقید سے بالا تر ہونے کے لیے کافی ہے ۔اس معاملہ میں یہ پرلے درجے کے مرجئہ ہیں ۔
    (ج)اسلامی جماعتوں سے یہ اُسئ طرح کا سلوک کرتے ہیں جیسا کہ رافضہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے ساتھ نفرت و بغض کا رویہ اپناتے ہیں۔رافضہ بھی صحابہ کی غلطیوں (اپنے زعم میں )کو جمع کرتے ہیں اور پھر اصحاب رسول ﷺ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔اسی طرح یہ لوگ علمائے اہل سنت کی غلطیوں کو جمع کرتے ہیں اور ان کی تشہیر کرتے اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں ،کسی جماعت کے ایک فرد سے ہونے والی غلطی کو پوری جماعت کے کھاتے میں ڈالتے اور نفرتیں بوتے نظر آتے ہیں ۔
    تشریح
    ان لوگوں کا معاملہ حکمرانوں اور اسلامی جماعتوں کے ساتھ دو متضاد رویوں پر مشتمل ہے ۔ظالم ،ڈاکو اور لٹیرے حکمرانوں کے کفریہ اقوال و اعمال کی یہ تاویلات باطلہ کرتے ہیں جبکہ نیک نیت اور صالح علماء اور داعیو ںکی غلطیوں پر انہیں بدعتی ،جہنمی ،فسادی ،تکفیری ،خارجی ،حزبی اور نہ جانے کیسے کیسے برے القابات سے نوازتے ہیں ۔
    (د)نصاریٰ اور کفار کے حق میں یہ قدریہ اور جبریہ ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ان کفار کے تسلط اور غلبے سے مسلمان کسی صورت نہیں نکل سکتے ۔ اپنا دفاع کرنے کا ہمارے پاس کو ئی وسیلہ اور ذریعہ نہیں ۔لہٰذا اس امت میں اپنا دفاع اورکافروں سے جہاد کے لیے پیدا ہونے والی ہر حرکت شرعاً حرام ہے جس کا انجام سوائے مزید ذلتوں اور ناکامیوں کے اور کچھ نہیں ۔اسی لیے اس فکر کا ایک عنوان یہ بھی ہے کہ ’’امام کے بغیر جہاد نہیں کیاجا سکتا‘‘۔
    تشریح
    اس فکر کا کہنا ہے کہ فلسطین میں مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ کے لیے جنگ کرنے کی بجائے اپنے علاقوں کو یہود کے حوالے کر دینا چاہیے ۔افغانستان اور عراق کا جہاد باطل ہے ،یہ فکر جس قدر حکمرانوں سے محبت کا سبق دیتی ہے اُس سے کہیں بڑھ کر جہاد اورمجاہدین سے نفرت و بغض کے بیج بوتی ہے ۔کیونکہ بہرحال یہ جہاد حکمرانوں کو بالکل پسند نہیں ۔لہذا دنیا میں جہاں بھی مسلمان قوم مر کٹ رہی ہے اسی مرتے رہنا چاہیے ،یا اپنے علاقے چھوڑ دینے چاہیں ۔دوسرے مسلمانوں کو ان کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اس لیے مر رہے ہیں کہ ان کے عقیدے میں کمزوریاں ہیں لہٰذامرتے ہیں تو مرنے دو ! یہ ہے چنگیزی فکر جو سلفیت کے نام پر پھیلائی جارہی ہے ۔ھداھم اللہ
    تعجب ہے اس فکر ِ باطل پر جس نے ان مختلف بدعتی گروہوں کے افکار کو اپنے اندر جمع کر لیا ہے ۔یہ دوہرے میعار رکھنے والی فکر ہے حکام کے لیے ایک میعار اور داعیان دین ، علمائے اہل سنت اور اسلامی جماعتوں کے لیے الگ میعار! فلا حول ولا قوۃ الا باللہ
    دوسرا اصول :۔کفر کا فتویٰ لگانے اور بدعتی کا حکم لگانے کے بارے میں ان کا اصول
    یہ ہر اس مسلم کو کافر قرار دیتے ہیں جو کفر میں واقع ہو یا جو ان کے نزدیک کفر بنتا ہو ۔اس ھوالے سے یہ اتنی زحمت نہیں کرتے کہ دیکھیں کیا یہ شخص جہالت ،تاویل یا اکراہ کے سبب تو اس کفر میں واقع نہیں ہو رہا بلکہ فٹ فتویٰ جاری کرتے ہیں ۔البتہ اگر کفر کرنے والا حکمران ہو تو پھر معاملہ اور ہے !
    اسی طرح یہ ہر اس مسلمان کو بدعتی قرار دیتے ہیں جو کسی بدعت کا ارتکاب کر بیٹھے ۔اس حوالے سے اُس شخص کا جاہل ہونا یا تاویل کرنے والا ہونا ،یا مجتہد ہونا ان کی نظر میں کچھ اہمیت نہیں رکھتا ۔
    سچی بات تو یہ ہے کہ یہ فرقہ خود اس بات کا مستحق ہے کہ اسے بدعتی کہا جائے کیونکہ انہوں نے دین میں نئے نئے بدعتی اصولوں کو ایجاد فرمایا ہے ، جیسا کہ ان کا درج بالا اصول جو کہ بدعتوں فرقوں کا اصول ہے نہ کہ سلفی علماء کا !
    تیسرا اصول :۔ جو بدعتی کو بدعتی نہیں کہتا وہ بھی بدعتی ہے ۔
    پہلے تو یہ ظالم کسی کوبھی بغیر موانع دیکھے بدعتی قرار دے دیتے ہیں پھر لوگوں پر فرض کرتے ہیں کہ فلاں کو بدعتی کہو،اگر کوئی ایسا نہ کرے تو یہ اُس پر بھی بدعتی ہونے کا فتویٰ صادر فرما دیتے ہیں ۔اس اصول کا اکثر اطلاق جماعتوں کے بارے میں کیا جاتا ہے ،پہلے تو یہ کسی دعوت کا کام کرنے والی اسلامی جماعت کو بدعتی جماعت ڈیکلیئر کرتے ہیں پھر جو کوئی ان کے اس باطل فتوے کو نہ مانے یہ اُسے بھی بدعتی قرار دیتے ہیں ۔جرم یہ کہ تو فلاں جماعت پر ہمارے فتوے کو تسلیم کیوں نہیں کیا ۔یہ فکری دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے !یہ خارجیت نہیں تو اور کیا ہے !
    چوتھا اصول :۔علماء اور اسلامی گروہوں کی رہنماوں کے اقوال کی تحقیق نہیں کرتے ۔
    اگر کسی کوئی بات مطلق کی گئی ہے اور دوسری جگہ اُسے شرائط اور اصولوں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے تو یہ مطلق بات کو لے کر فتوے بازی کرتے ہیں اور مفصل بات کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے ،نہ ہی کسی مشتبہ باطل کو محکم کے ساتھ ملا کر رائے قائم کرتے ہیں بلکہ ظن و گمان پر نفرتوں اور عدوتوں کی بنیاد رکھتے ہیں ۔
    اس بنیاد پر یہ لوگ داعیان دین پر کفر و بدعت کے فتوے جاری کرتے ہیں ،کسی داعی سے موہم ،غیر واضح یا مشتبہ سی بات ملی نہیں اور ان کی فتوے بازی شروع ہوئی نہیں ۔اگر انصاف سے اس کی مشتبہ بات کو اسی کی محکم بات سے ملا جائے یا مجمل کو مفصل سے ملاکر دیکھا جائے تو اشکال ختم ہو جاتا ہے،یا بعض اوقات وہ داعی ایک جگہ ایک غلطی کرتا ہے تو دوسری جگہ اُس کی اصلاح کر لیتا ہے،مگر اس کی انہیں کیا پرواہ! یہ اصحاب اس حوالے سے تکلیف کرنے کی بجائے جھٹ پٹ بدعتی ،حزبی ،اخوانی ،وغیرہ وغیرہ کے القابات سے نوازنے لگتے ہیں ۔
    یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک مسلمان کی بات کو وہ معنی پہنایا جائے جو وہ نہیں چاہتا ،اس کی بات کی وہ تفسیر کی جائے جسے وہ خود باطل سمجھتاہو ،اس کی عبارت سے وہ کچھ نکالا جائے جو اس کی نیت و ارادہ کے ہی خلاف ہے ۔ہاں البتہ اس قاعدے سے ان اصحاب کے اپنے بڑے اور بزرگ ضرور محفوظ اور بالا تر ہیں !

    پانچواں اصول :۔دین کے لیے کی جانے والی اجتماعی کوششیں تمام فتنوں کی جڑ ہیں ۔
    ان حضرات کا یہ ایک باقاعدہ اصول ہے کہ دین کے لیے مسلمان مل کر کوئی بھی کام نہیں کرسکتے ۔معاشرے سے برائی ختم کرنے کے لیے مسلمانوں کی کوئی اجتماعی کوشش ہو یا دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمان آپس میں متحد ہوں اس سے ان حضرات کو نہایت نفرت ہے اور یہ اسے ہر صورت حرام جانتے ہیں ۔اس اصول سے کچھ مزید شاخیں بھی نکلتی ہیں ،مثلا :
    (الف)یہ حضرات مذموم گروہ بندی اورنصرت دین کے لیے کی جانے والی جائز اجتماعی کاوشوں میں فرق نہیں کرتے ،دونوں کو ایک ہی درجے میں رکھتے ہیں ۔
    (ب)ان کے نزدیک ہر اجتماعی کاوش مذموم گروہ بندی ہے ‘جہاں بھی مسلمان مل جل کر کوئی بھلا کام کریں گے وہیں یہ مذموم گروہ بندی پائی جائے گی۔
    ایک طرف یہ لوگ جماعت بندی اور اجتماعی عمل کو حرام کہتے ہیں تو دوسری طرف اسے اپنے لیے حلال کیے ہوئے ہیں اور خود منظم جماعت کی شکل میں کام کر رہے ہیں ۔مدینہ میں بیٹھی ان کی قیادت پورے ملک بلکہ اسلامی دنیا میں اپنا تنظیمی جال بُننے میں مشغول ہے۔اللہ انہیں ہدایت دے ۔
    چھٹا اصول :۔دعوت کا سب سے بڑا کام اسلامی شخصیات اور جماعتوں کی غلطیاں جمع کرنا اور نیکوں اور مثبت پہلونظرانداز کرنا ہے ۔
    اس فکر کے نزدیک اسلام کے دشمن یہود ،نصاریٰ ،سیکولر ،روافض ،قادیانی اگرچہ کہ کافر اور دین دشمن ہیں مگر ان کی ساری مخالفت اور جدوجہد کا مرکز خود اسلامی گروہ اور مسلم شخصیات ہی ہوتی ہیں۔ان کا سب سے بڑا مقصد ان گروہوں کو بے عزت کرنا اور لوگوں میں انہیں بدنام کرنا ہے ۔ان کے انداز میں اصلاح کے غم کی بجائے دوسروں میں غلطی اور گمراہی پائے جانے پر خوشی پائی جاتی ہے ۔ان کا لب لہجہ ،انداز تکلم ،طرز تحریر اہل اسلام کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر ایسے برسنے اور دشمنی و عدات پیدا کرنا کا ہوتا ہے گویا وہ حملہ آور کفار کے خلاف مسلمانوں کو قتال کی ترغیب دے رہے ہوں ۔چنانچہ اسلامی جماعتوں کے حوالے سے ان کے ہاں درج ذیل فتویٰ اصول کی حیثیت رکھتاہے جس پر ان کی عمارت کھڑی ہے :
    اسلامی جماعتیں گمراہ فرقے ہیں ۔
    ان کے نزدیک آج کی اسلامی جماعتیں پچھلے گمراہ اور بدعتی گروہوں کا ہی تسلسل ہیں ۔یہ جماعتیں معتزلہ ،قدریہ ،جہمیہ ،خوارج ،اشاعرہ کی مختلف شکلیں ہیں ۔ان کے ہاں پہلے ان گمراہوں کو معتزلہ اور اشاعرہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور اب انہیں اخوان المسلمین اور تبلیغی جماعت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
    امام شاطبی رحمہ اللہ کسی شخص اور گروہ پر گمراہی اور بدعتی ہونے کا فتویٰ لگانے سے متعلق یہ اصول بیان کرتے ہیں :
    ( وذلك أن هذه الفرق إنما تصير فرقا بخلافها للفرقة الناجية في معنى كلي في الدين ، وقاعدة من قواعد الشريعة لا في جزئي من الجزئيات ، إذ الجزئي والفرع الشاذ لا ينشئ عنه مخالفة يقع بسببها التفرق شيعا ، وإنما ينشأ التفرق عند وقوع المخالفة في الأمور الكلية ) ... إلى قوله : ( ويجري مجرى القاعدة الكلية كثرة الجزئيات فإن المبتدع إذا أكثر من إنشاء الفروع المخترعة عاد ذلك على كثير من الشريعة بالمعارضة ) [الاعتصام 2/200].
    ان کے نزدیک مسلمانوں کے اصل دشمن یہود و نصاریٰ اور الحادی نظریات کی داعی مغربی فکر نہیں‘اگرچہ کہ اس کا یہ زبان سے اقرار نہیں کرتے مگر ان کا عمل یہی بتاتا ہے کہ مسلم عقیدہ و امت کی اصل دشمن اسلامی تحریکیں ہیں جس کے سبب یہ ان کے رد میں اپنے آپ کو مشغول رکھتے ہیں۔

    ساتواں اصول :مسلمانوں کے حالات پر غور وفکر کرنا اور دشمنان اسلام کے افکار اور پروگرامز کو جاننا شرعاً حرام ہے ۔
    ان اصحاب کے ہاں امت مسلمہ کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کو جاننا اور اسے عوام کے سامنے لانا ،دشمن کے منصوبوں کو بے نقاب کرنا جائز نہیں کیونکہ اس سے ان کے ہاں فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے ،البتہ اگر کوئی امت کے حالات کوجاننا چاہت اہے تو اُسے صرف اس میڈیا پر اعتماد کرتے ہوئے ایسا کرنا چاہیے جو کہ مغرب کے ایجنٹوں کا غلام اور ان کے مفادات کا محافظ ہے ۔اصل میں یہ فکر بنیادی طور پر اسلام کے نام پر حکمرانوں کی غلامی ،دین کے نام پر حکمرانوں کی اطاعت و فرمانبرداری کو فروغ دینے کے لیے پروان چڑھائی گئی ہے ۔اس لیے ہر ایسا کام جس سے حکمرانوں کے مفادات پر زد پڑتی ہو اس کی رو سے نہایت بڑا جرم ،فساد اور حرام ہے ۔
    آٹھواں اصول :۔فقہ الواقع کو جاننا اور اس حوالے سے سوچنا اور کوئی قدم اٹھانا محض حکمرانوں کے لیے خاص ہے ۔
    سیکولر فکر کے مسلمانوں پر اثرات کا ایک واضح نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں نے اپنی مذہبی امور کو علماء اور سیاست و معاشرے کو خواہشات نفس کے بندوں (حکمرانوں )کے سپرد کر دیا ۔مدخلی فکر بھی اسی سوچ سے متاثر ہے ،اس لیے ان کے ہاں امت کی سیاست سے متعلق معلومات رکھنا ،اس حوالے سے اقدام کرنا علماء کا کام نہیں بلکہ یہ کام حکمرانوں کو ہی سزا وار ہے ۔اس لیے اگر کوئی طالب علم ان کےسامنے اس حوالے سے اپنا شوق ظاہر کرتا ہےتو یہ اُسے کہتے ہیں بھائی یہ کام (فقہ اواقع کو جاننا)تجھے سزاوار نہیں یہ تو حکومت وقت کی ذمہ داری ہے ۔اسی طرح یہ حضرات ایسے علماء کو تکفیری ،اخوانی ،بدعتی کے برے القابات سے نوازتے ہیں جو عام مسلمانوں کو خطبات جمعہ یا دروس میں عالم اسلام کے حالات سے آگاہ کرتا اور اس حوالے سے انہیں ان کی ذمہ داریاں یاد دلاتا ہے ۔
    نواں اصول:۔خلیفہ اور حاکم موجودگی اور اجازت کے بغیر جہاد کرنا حرام ہے۔
    اس فکر کی بنیادی ہدف جہاد کا میدان ہے ،یہ جس چیز سے سب سے زیادہ نفرت کرتے ہیں وہ صدائے جہاد ہے ،انہیں جن شخصیات پر سب سے زیادہ غصہ آتا ہے وہ قائدین جہاد ہیں ،ان کے منہ سے مارے غصے کے تھوکیں اڑتی ہیں جب ان کے سامنے شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ یا کسی اور جہادی قائد کا ذکر کیا جائے ۔جہاد کے لیے ان اصحاب نے ایسی ایسی شرطیں ایجاد کر رکھیں ہیں کہ جو کبھی قیامت تک پوری نہ ہوں۔ان کے مطابق جہاد کا اعلان محض خلیفہ ہی کر سکتا ہے ،جب تک خلیفہ یا موجودہ حکمران جنہیں یہ ولی الامر کہتے ہیں جب تک جہاد کی اجازت نہیں دے دیتے تب تک مسلمانوں کے دفاع کے لیے بھی میدانوں کا رخ کرنا حرام ہے ،نیز یہ کہ ولی الامر صاحب کی اجازت کے بغیر شہید ہونے والا جاہلیت کی موت مرتا ہے ۔چنانچہ اس فکر کے کئی ایک اصحاب نے باقاعدہ جہادِ افغان اورجہادِ عراق کے باطل اور حرام ہونے پر کتب تصنیف فرمائی ہیں اور فتوے مرتب کیے ہیں ۔اس معاملے میں یہ لوگ رافضہ اور قادیانیوں کے راستے پر ہیں جنہوں نے ہمیشہ جہاد کی حرمت کے فتوے دیے۔
    دسواں اصول :۔مسلمان اپنے دفاع کی طاقت نہیں رکھتے لہٰذاانہیں اپنے دفاع میں اسلحہ اٹھانے کی بجائے اپنے علاقوں چھوڑ دینا چاہیے اور ظلم کو برداشت کرنا چاہیے ۔
    یہ حضرات فلسطین کے مسلمانوں کو مسورہ دیتے ہیں جناب آپ اپنے علاقوں سے ہی نکال جاو ٔ،کوئی کہتا ہے کہ ہم میزائل اور ٹیکنوں کا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہیں لہٰذا دفاع کے لیے بھی بندوق نہ اٹھاؤ۔کوئی کہتا ہے طالبان کے عقائد میں خرابیاں ہیں لہٰذاافغانستان کا جہاد ایک باطل جنگ ہے ،وغیرہ وغیرہ۔اور اگر کبھی جہاد کی پشت پناہی ان کے ولی الامر (حکمران) خود کرنے لگیں تب یہ بھی جہاد کی فرضیت کے فتوے دیتے نظر آتے ہیں ۔اور ساتھ ہی شرط عائد کرتے ہیں جہاد وہ جو بادشاہ کہے ،اتنا کرو جتنے کی اجازت حاکم وقت دے ،اُس وقت تک کرو جب تک کہ حکمران کی اجازت ہو ۔ان کے ہاں امت کو ترکِ جہاد پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ وہ بیچاری اس کی طاقت ہی نہیں رکھتی ۔یہ ہیں وہ مذہبی پروہت جو ہمیشہ بادشاہوں کی خدمت کے لیے مذہب کو استعمال کرتے رہے ہیں ۔اسی جہاد کے بارے میں ان کا ایک اصول یہ بھی ہے :
    ’’آج کے دور سب سے افضل جہاد یہ کہ جہاد کا نام لینا بند کردیا جائے،اور سب سے افضل تیاری یہ ہے کہ جہاد کے لیے ہرگز تیاری نہ کی جائے ‘‘۔
    گیارہوں اصول :۔سلطان کی برائی کرنا اور اس کے عیوب کو برسرعام بیان کرنا حرام ہے۔
    سفیان ثوری رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا :’’جب تو کسی عالم کو دیکھے کہ وہ سلطان کے پاس کثرت سے آتا جاتا ہے تو جان لے کہ وہ چور ہے ‘‘۔
    لیکن یہ وہ طبقہ ہے جن کی ہمیشہ بادشاہوں نے سرپرستی کی ،آج بھی حکمران انہیں اپنا نہایت قریبی سمجھتے ہیں ،انہیں میڈیا پر اور ہر عوامی فورم پر اسلام کی نمائندگی کے لیے جگہ دیتے ہیں ،مالی وسائل کے ساتھ ان کی تنظیموں کو مضبوط کرتے ہیں ۔
    ان کا کردار بادشاہوں اور حکمرانوں کے حوالے سے ہمیشہ خادمانہ رہاہے ،یہ مقتدر طاتوں کو علمائے حقہ کے بارے میں خبریں دیتے ہیں ،اہل علم کے کیسٹوں سے نظام وقت کے خلاف باتوں کو نکال نکال کریہ اپنی حکومتوں کو خبریں دیتے ہیں ،علماء حقہ کو خارجی اور تکفیری باور کرواتے ہوئے انہیں گرفتار کرواتے ہیں ۔علماء حقہ اور داعیان کی یہ ہمیشہ اور ہر جگہ جاسوسیاں کرتے پھرتے ہیں ۔اللہ ان کے شر سے اہل علم کو محفوظ فرمائے ۔آمین
    بارہواں اصول :۔لوگوں کو اہل سنت کے دائرے سے نکالنے کامطلق ا ختیار اور فتوے بازی کرنے کی ذمہ داری انہی پر ہے ۔
    ان کا ایک اہم تعارف یہ ہے کہ یہ لوگوں کو اہل سنت سے اس طرح خارج کرتے ہیں کہ گویا یہی فکر اہل سنت کے مالک اور اہل سنت میں کسی کو داخل کرنے اور نکالنے کی اتھارٹی انہی کے پاس ہے ۔اصل مقصد کیا ہے وہ قارئین پر پچھلے ذکر کردہ اصولوں کی روشنی میں واضح ہو چکا ہوگا،اصل میں یہ نظام وقت کے محافظ ہیں ‘اب اس کے لیے عوام میں مقبولت کی کوئی نہ کوئی تو بنیاد ہونی چاہیے تو وہ خوبصورت بنیاد جس سے یہ لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ جناب ہم تو عقیدہ توحید کے محافظ ہیں ،ہم اہل سنت کا دفاع کرنے والے ہیں ‘مگر اس آڑ میں یہ لوگ دراصل ہراُس شخص پر ضرب کاری لگاتے ہیں اور اُسے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو معاشے میں دعوت و جہاد کا علم تھامے ہوئے ہے ، جو حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہتا ہے ،جو لوگوں کو ’دارلاسلام ‘کی یاد دلاتاہے ،جو اللہ کی حاکمیت کی بات کرتا ہے ،جو کفریہ قوانین ودساتیر کا انکار کرتا ہے ،جو اللہ کے ساتھ شرک پر قائم نظاموں سے عداوت رکھتا ہے ۔
    ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے شخص کی کوئی غلطی تلاش کی جائے اور پھر اسے اچھا لا جائے ،اس حوالے سے یہ عدل و انصاف کے سب تقاضے بھول جاتے ہیں ۔اس کی ایک مثال الحادِ مغرب کے سامنے پل باندھنے والے مجاہد عالم سید قطب ہیں جو اللہ کی توحید کی خاطر پھانسی پر تو چڑھ گئے مگر سمجھوتہ نہ کیا ۔یہ مدخلی سید قطب پر وحدت الوجود کے عقیدے کا الزام لگاتے ہیں جبکہ سید قطب اس کفر سے بری ہیں ،مدینہ کے ایک بزرگ عالم بکر ابو زید رحمہ اللہ نے (جو کہ لجنۃ کبار العلماء کے رکن تھے) اس الزام کا رد کرتے ہوئے ان مداخلہ پر رد کیا ہے ۔اسی طرح یہ دیگر ان شخصیات کو مطعون کرتے ہیں جن کا کفر کا راستہ روکنے میں ایک کردار ہے ۔پھر ان کا رد اصلاح و ہمدردی کے انداز پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ طعن و تجریح ،الزامات اور فتوے بازی ،نفرت و اشتعال کو بھڑکانا ان کی تنقید کا بنیادی وصف اور خصوصیت ہے۔
    تیرہواں اصول:۔چند مخصوص علماء کی تقلید کو واجب کہتے ہیں اور ان کے سوا کسی عالم کے رائے کو ذرہ بھر اہمیت نہیں دیتے ۔
    فکری اعتبار سے ایک طرف یہ لوگ ائمہ اربعہ کی تقلید کو حرام کہتے ہیں بلکہ بعض تو اس قدر شدت کرتے ہیں گویا کہ مقلدین کو اسلام سے ہی خارج کر رہے ہوں ۔اپنا حال یہ ہے کہ یہ حضرات تین چار بزرگ علماء جو کہ ان سے بری ہیں اُن کا نام استعمال کرتے ہیں ،اپنے مطلب اور پسند کے معاملات میں ان کے فتوے پیش کرتے ہیں ۔لوگوں پر یہ لوگ ان مخصوص حضرات کے علاوہ کسی اور کی رائے چاہے وہ دلائل سے مزین ہی کیوں نہ ہو لینے سے روکتے ہیں ۔ایک طرف یہ ائمہ اربعہ کی تقلید کے ردمیں غلو کا شکارہیں تو دوسری طرف خود بدترین مقلد ہیں ۔
    چودھواں اصول :۔حق اگر مخالف گروہ اور شخصیت کی طرف سے آئے تو اُسے قبول نہ کیا جائے ۔
    یہ ایسے متعصب مقلد اور ظالم مجتہد ہیں کہ اپنے گروہ کے ہاں معتبر حضرات کے علاوہ نہ توکسی کی بات سنتے ہیں اور اگر سن لیں تو حق کو قبول نہیں کرتے ۔اس حوالے سے اپنے پیروکاروں کی ذہن سازی کرنے کے لیے یہ سلف کے ان اقوال کا سہارا لیتے ہیں جن میں اہل بدعت کے پاس علم حاصل کرنے اوراُن کی کتابیں پڑھنے سے منع کیا گیا ہے ۔گویا سلف کے اقوال کا مقصد ان مداخلہ کے علماء کو اہل حق اور متبع سنت قرار دینا اور ان کے سوا ساروں کو بدعتی اور گمراہ قرار دینا تھا ۔یہ ظالم ورثہ سلف کے ٹھیکیدار بنتے ہوئے اہل علم اور اسلامی جماعتوں پربدعت ،گمراہی اور ضلالت کے فتوے لگاتے ہیں اور اپنے آپ کو معصوم ،اہل سنت کے امام ،مقتدا اور پیشوا باور کرواتے ہیں ۔ان کا قاعدہ یہ ہے کہ بس وہی بات حق ہے جو ہمارے بزرگ فرتے ہیں اور ہمارے سوا کسی کی بات سننا اور حق ہو تو قبول کرنا حرام ہے ۔اللہ ان کے شر سے امت کو محفوظ فرمائے ۔آمین
    پندرہواں اصول :۔حاکمیت الٰہی کی دعوت سے دشمنی اور نفرت
    اس فکر کا ایک اہم ترین ستون اللہ کی حاکمیت سے عداوت رکھنا اور اس مسئلہ کو بیان کرنے سے لوگوں کو روکنا ہے ۔اس اصول کو ہم درج ذیل نقاط میں قارئین کے سامنے رکھتے ہیں َ
    ۱۔علمی طور پر یہ لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ کی حاکمیت حق ہے اور اس کی دعوت دین کی دعوت ہے مگر ساتھ ہی یہ لوگوں کو خبرار کرتے ہیں کہ جو لوگ یہ دعوت دے رہے ہیں وہ کوارج اور تکفیری ہیں ،یعنی حاکمیت الٰہی حق اور اللہ کا دین ہے مگر اس کی دعوت دینا اس کی اہمیت بیان کرنا اور اس کی خاطر جدوجہد کرنا خارجی پن اور تکفیری انداز ِ فکر ہے ۔یہ ہے حبِّ اسلام کے نام پر بغض اسلام ۔
    ۲۔یہ لوگ حاکمیت الٰہی کو ایک طرف توحید کا حصہ مانتے ہیں اور اُسی وقت آپ انہیں توحیدحاکمیت کی مخالفت کرتا ہوئے پائیں گے ۔یہ ظالم حاکمیت الٰہی کو اللہ کی توحید الوہیت اور ربوبیت کا حصہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں ۔
    ۳۔ یہ حضرات ’احیائے خلافت‘ ،حاکمیت الٰہی ،غلبہ دین ،نفاذِ شریعت کے نام سے چڑ کھاتے ہیں ۔اور غلبہ اسلام کی کوشش کرنےوالوں کو بدعتی اور تکفیری کہتے ہیں ۔
    سولہواں اصول:۔ حکم بغیر ما انزل اللہ کو کفر اصغر قرار دیتے ہوئے کافرانہ نظاموں کی حفاطت و حمایت کرنا۔
    یہ حضرات موجودہ کافرانہ نظاموںکادفاع کرتے ہیں ( جو کہ خود ان کے اصولوں کی رو سے بھی کافرانہ ہیں ) ۔اس بات کوہم درج نقاط میں قارئین کے سامنے رکھتے ہیں :
    (الف )یہ اصحاب قبر پرستی کے رد پر بے حد زور دیتے ہیں اور اس حوالے سے اسلامی جماعتوں میں پائی جانے والی سستی اور انحراف پر رد کرتے ہیں جو کہ ایک درست بات ہے ،مگر ساتھ یہ وہ حکومتیں جو ناصرف یہ کہ خود قبر پرست ہیں بلکہ اس شرک کو رواج دینے والی اور اس کا دفاع کرنے والی ہیں یہ انہیں اسلامی کہتے ہیں نظر آتے ہیں اور ان کے خلاف کی جانے والے ہر دعوتی سرگرمی کو تکفیریت کا عنوان دیتے ہیں حالانکہ دوسری طرف یہ خود لوگوں کو قبرپرستوں کی تکفیر اوراس شرک کی شناعت کی جانب بلاتے ہیں ۔اس کی وجہ وہی ہے جو ہم پہلے پڑھ چکے کہ جب بھی کوئی جرم حکمران کرے تو وہ جرم جُرم نہیں رہتا ۔یا د رہے قبوری شرک کی بنیاد پر تکفیر کرنے میں ان مداخلہ اور سلفی علماء میں کوئی بڑا فرق نہیں پایا جاتا۔
    (ب )یہ حکم بغیر ماانزل اللہ کو کفر اصغر کہتے ہیں جب تک کہ حاکم اس گناہ کو دل سے حلال نہ کرلے ،اس مسئلہ پر اختلاف اور بحث ہمارا مقصود نہیں ،یہاں مقصد یہ ہے کہ کم از کم یہ لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی دل سےغیر اللہ کے قانون سے فیصلہ کرنے کو حلال کر لیتا ہے تو وہ کافر ہے جبکہ دوسری طرف وہ حکومتیں جو سیکولرازم کا نظریہ اپنائے ہوئے ہیں ،جس کی رو سے نہ صرف حکم بغیرماانزل اللہ کرنا جائز اور حلال ہے بلکہ اللہ کے دین سے سیاست ،معاشرت اور معیشت کے کسی مسئلے کو حل کرنا اور اس بارے میں کوئی فیصلہ کرنا حرام اور ناقابل معافی جرم ہے ۔یہ حضرات ایسے کافروں کو جو اپنے دل سے کفر کر رہے ہیں اُن تک کو نہ صرف مسلمان کہتے ہیں بلکہ لوگوں پر ان کی اطاعت واجب اور ان کی بغاوت کو خارجیت کا الزام دیتے ہیں ۔گویا دین بنانے کا اختیار انہیں مداخلہ کو حاصل ہے اور ان کا دین یہ ہے کہ حاکم وقت کے خلاف بولنا ،قدم اٹھانا خارجیت ہے چاہے ،ہر وہ حاکم مسلمان ہے جو اپنے آپ کو مسلم کہتا ہے چاہے وہ اللہ کی توحید کا منکر اور اس کےدین کا دشمن ہی کیوں نہ ہو!اور ان لوگوں کی فکر کی رو سے سلفیت کا مطلب حکمرانوں کی غلامی کرنا اور انکے مفادات کا تحفظ کرنا ہے ۔اللہ ان ظالموں کے شر سے مسلمانوں کو محفوظ فرمائے ۔آمین
    (ج)حکم بغیر ما انزل اللہ اور ایمان و کفر کے معاملے میں یہ طبقہ ارجاء کا شکار ہے جن کی عقیدہ یہ ہے کہ کفر محض دل سے ہی ہوتا ہے ،اعمال سے کفر نہیں ہوتا ۔اعمال سے کیا جانے والا ہر کفر کفرِ اصغر ہوگا ،اسی طرح ان کے نزدیک اعمال کا تعلق ایمان کےکمال سے ہے ۔ اس ساری جدوجہد کا مقصد حکام کا دفاع ہے۔
    آخری اصول :۔جو ان تمام اصولوں میں بدترین ہے وہ یہ ہے کہ تمام دینی علوم میں سب سے اہم اور اولین کام اوپر بیان کردہ اصولوں کو سیکھنا ہے۔جو عالم ان اصولوں سے اتفاق نہیں کرتا اُس سے علم حاصل کرنا جائز نہیں ۔
    یہ ہے اس بدترین فکر کاخلاصہ جو سلفیت کے نام پر دھبہ ہے ،جن کی جہاد دشمنی کا حال یہ ہے کہ یہ ایسے قاری قرآن سے بھی نفرت کرتے ہیں جو جہاد کی آیات پر روتے ہیں ،اللہ سے دعا ہے کہ انہیں ہدایت اور دے اور اپنے مجاہد بندوں کی نصرت و مدد فرمائے !آمین

      Current date/time is Fri Apr 26, 2024 12:09 pm