Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ


Join the forum, it's quick and easy

Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ

Rashid Ali Parchaway

Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

Jamal Abad Michni Parchaway.

Keywords

Affiliates


free forum

Forumotion on Facebook Forumotion on Twitter Forumotion on YouTube Forumotion on Google+


    سے کم عمر افراد کے لیے

    Admin
    Admin
    Admin
    Admin


    Posts : 527
    Join date : 09.10.2014

     سے کم عمر افراد کے لیے Empty سے کم عمر افراد کے لیے

    Post by Admin Tue Mar 24, 2015 10:27 am

    مارے دوست مسٹر کلین کو سماجی مسائل سے خصوصی دلچسپی ہے۔ اسی دلچسپی کے باعث موصوف این جی اوز کے لیے ’’ریسرچ ورک‘‘ کرتے رہے ہیں۔ خاص طور پر مذہبی نوعیت کے سماجی معاملات پر تو موصوف ’’اجتہادی شان‘‘ رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی ’’اجتہاد‘‘ کرتے ہوئے انہیں کوئی اُلجھن ہوجاتی ہے تو ہمیں بھی یاد فرمایا کرتے ہیں۔ گزشتہ روز موصوف ہمارے مسکین خانے تشریف لائے۔ ان کے ہاتھ میں حسب معمول کاغذات اور اخبارات کا ایک پلندا سا تھا۔ گرمی کے باعث پسینے میں شرابور تھے۔ تشریف رکھنے کے ساتھ ہی فرمانے لگے: ’’ملاجی! مجھے ایک چیز کی سمجھ نہیں آئی۔ شادی کے لیے 18 سال کی عمر کی قید کا قانون پیش کیا گیا ہے تو آپ ملا لوگوں نے اس پر بھی آسمان سر پر اٹھالیا ہے۔ اگر ملک میں ایسا قانون بنتا ہے تو اس سے اسلام کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟‘‘
    ہم نے زمینی پنکھے کا رُخ مسٹر موصوف کی طرف کردیا تاکہ وہ کچھ ’’ٹھنڈے‘‘ ہوجائیں۔ گزارش کی: ’’آپ کے اس سوال کا جواب بعد میں دیا جائے گا۔ پہلے آپ یہ وضاحت فرمائیے پاکستان میں 18 سال سے کم عمر میں شادی کا قانون لانے کا مقصد کیا ہے؟ یہ ایجنڈا کس کا ہے؟ کیا پاکستان میں کہیں بھی عوامی سطح پر کوئی مطالبہ سامنے آیا ہے کہ شادی کے لیے عمر مقرر کی جائے؟ کیا کسی سیاسی جماعت کے انتخابی منشور میں یہ بات شامل تھی کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد سب سے پہلے 18 سال سے کم عمر کی شادیوں پر پابندی لگائی جائے گی؟ اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے تو پھر یہ قانون کہاں سے آیا ہے؟ اس کا محرک کون ہے؟‘‘ مسٹر کلین اس بات پر تھوڑے سے بر افروختہ ہوگئے۔ کہا:

    ’’ایک تو آپ لوگوں میں یہ مصیبت ہے کہ جب بھی ہوا کا تازہ جھونکا چلتا ہے، آپ لوگوں کو اس میں بیرونی سازش کی بو محسوس ہوتی ہے۔ آپ لوگوں کی ناک میں یہ اتنا تیز ’’سینسر‘‘ کہا ں سے لگا ہوتا ہے؟ بھائی میرے! ہر چیز دُشمنوں کی سازش نہیں ہوتی۔‘‘
    ہم نے عرض کیا: ’’دیکھیں! دیگر معاملات کو تو آپ ہماری سازشی حس کا کرشمہ سمجھ سکتے ہیں، جہاں تک 18 سال سے کم عمر میں شادی کے قانون کا تعلق ہے تو اس کو تو ’’حواسِ خمسہ‘‘ رکھنے والے ہر شخص کو پتا ہے کہ چند روز قبل برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ملکہ برطانیہ کے ’’سب سے بڑے وزیر‘‘ (برطانوی نو آبادیات میں ’’وزیراعظم‘‘ کا عہدہ شاہ بر طانیہ کے ماتحت حکومت کی علامت ہے) چند روز قبل یہ ’’فرمان‘‘ جاری کیا تھا کہ پاکستان میں نوعمری کی شادیاں قابل قبول نہیں ہیں۔ اب اس شاہی فرمان کے بعد کہاں گنجائش رہ جاتی ہے کہ غلام سرتابی کریں۔ یہ تو بالکل سامنے کی بات ہے یہ قانون بر طانوی وزیر اعظم کے اس فرمان کی تعمیل میں بنا یا گیا ہے۔ ‘‘
    ’’چلیں چھوڑیں اس بات کو! آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں۔ پہلے آپ ایک سوال کا جواب دیں۔ کیا 18 سال کی عمر سے پہلے زنا کرنے پر سزا بھی ہونی چاہیے؟‘‘ مسٹر موصوف نے کہا: ’’دیکھیں! جو بھی غلط کام کرے، اس کو اس کی سزا ملنی چاہیے، مگر 18 سال سے کم عمر کے مجرم کو دیگر جرائم میں بھی کم سزا دی جاتی ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’بہت خوب! ایک 17 سالہ نوجوان اگر جائز طریقے سے شادی کرے گا تو یہ بڑاجرم ہوگا اور اگر زنا کرے گا تو وہ ’’معصوم‘‘ کہلائے گا؟‘‘ مسٹر کلین نے کہا: ’’دیکھیں! آپ بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ شادی ایک ذمہ داری ہے اور جب تک کوئی نوجوان ’’میچور‘‘ نہ ہو، شادی کے تقاضوں کی تکمیل نہیں کرسکتا۔‘‘ ہم نے عرض کیا:
    ’’بھائی! شادی بیاہ کا تعلق فطری امور سے ہے۔ ان امور کی حتمی تحدید خود فطرت نے نہیںکی۔ شادی کی فطری ضرورت کا تعلق عمر سے نہیں بلوغ سے ہے اور بلوغ حقیقی کی کوئی حتمی عمر متعین نہیں۔ اس میں مختلف جسمانی، طبعی، موسمی، علاقائی اور معروضی عوامل کے تحت فرق ہوسکتا ہے۔ کھانا انسان کی فطری ضرورت ہے، مگر انسان کس وقت کھائے؟ کتنا کھائے؟ کیا کھائے؟ اس کی کوئی تحدید نہیں ہے۔ ہر انسان اپنی ضرورت، خواہش، گنجائش اورطبعی افتاد کے مطابق کھاتا پیتا ہے۔ ہاں! حلال حرام اور جائز ناجائز کی تحدید شریعت کا تقاضا ہے۔ شریعت کا کوئی تقاضا فطرت کے بر خلاف نہیں ہوتا۔ شادی کی بھی یہی بات ہے۔‘‘
    مسٹر کلین نے کہا: ’’اچھا ملاجی! آپ کھانے پینے کا صرف فلسفہ ہی بتائیں گے یا کچھ کھلانے پلانے کی عملی ’’تطبیق‘‘ کی صورت بھی نکالیں گے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’ضرور نکالیں گے، لیکن کھلانے اور خاص طور پر ’’پلانے‘‘ میں ہم مغرب کی بجائے شریعت کی تحدید پر ہی عمل کریں گے!‘‘ کچھ ہی دیر میں کھانے کے لیے سموسے اور پینے کے لیے چائے مسٹر کلین کی خدمت میںحاضر تھی


      Current date/time is Sat Apr 27, 2024 7:02 pm