Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ


Join the forum, it's quick and easy

Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ

Rashid Ali Parchaway

Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

Jamal Abad Michni Parchaway.

Keywords

Affiliates


free forum

Forumotion on Facebook Forumotion on Twitter Forumotion on YouTube Forumotion on Google+


    بے یقینی کے سائے

    Admin
    Admin
    Admin
    Admin


    Posts : 527
    Join date : 09.10.2014

    بے یقینی کے سائے Empty بے یقینی کے سائے

    Post by Admin Sat Mar 21, 2015 7:27 am

    ’’چی ناکین‘‘ (Chie Nakane) ٹوکیو یونیورسٹی کی ایک بین الاقوامی شہرت کی حامل ٹیچرہیں۔ وہ وہاں سماجی نشریات کے شعبے میں پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے جاپانی قوم پر ایک مشہور و معروف کتاب لکھی ہے۔’’ Japan Society‘‘ (جاپانی معاشرہ) کے نام سے یہ انگریزی زبان میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ ’’ناکین‘‘ نے کتاب کے مواد کے لیے سارے جاپان میں تحقیق کی۔ وہ ملک کے کونے کونے میں گئیں۔ ان کی اس کتاب کا آغاز ایک چونکا دینے والے فقرے سے ہوتا ہے۔ ’’ناکین‘‘ نے اسے اپنی ساری زندگی کی ریاضتوں کا ثمر کہا ہے۔ یہ فقرہ ہے’’The Constant Desire of Japanese Mind is to Rise a Little Higher Than the Average ‘‘(جاپانی زمین کی مسلسل خواہش ہے کہ وہ ایک اوسط انسانی ذہن سے کچھ اوپر چلا جائے) یہی تڑپ تھی جس نے 1945ء کے بعد جاپان معاشی ،معاشرتی اور عسکری طور پر امریکا کا غلام بن کر رہ گیا۔ جاپان وقت کے ساتھ ساتھ ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی راکھ سے باہر نکل آیا۔ ان گنت زلزلوں اور سیلابوں کے باوجود جاپانی قوم نے دنیا کی مضبوط ترین معیشتوں میں جگہ بنالی۔ امریکی میگزین ٹائم کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا جاپان کو 26 بلین ڈالر کا سامان برآمد کرتا ہے، جبکہ امریکا کو جاپان سے 85 بلین ڈالرز کی مصنوعات خریدنا پڑتی ہیں۔
    امریکا جاپان سے قرض میں اب تک 3 ٹریلین لے چکا ہے۔ امریکی اکانومی گردشوں کے چکر میں آکر ہچکولے کھا رہی ہے ۔جاپان آج کی دنیا کا سب سے بڑا مہاجن اور امریکا سب سے مقروض ملک ہے۔ 
    جاپان حجم کے اعتبار سے ایک نسبتاً چھوٹا ملک ہے۔ آپ دنیا کے نقشے میں اسے ڈھونڈیں تو مشکل پیش آجاتی ہے۔ یہ ایشیا کی انتہائی مشرقی سمت میں چھوٹے چھوٹے جزیروں میں بٹا ہوا ہے۔ سمندر نے ہزاروں سال میں اسے اپنی جگہ سے ہٹا کر معلق کردیا ہے۔ اس ملک کی زمین معدنیات سے خالی ہے۔ یہ اپنا سارے کا سارا خام مال بیرونی دنیا سے منگواتا ہے۔ موسمی اعتبار سے بھی یہ ایک نہایت درجہ ناہموار ملک ہے۔ اس کے پاس قابل کاشت اراضی کی شدید کمی ہے۔ خورد نی اجناس کے لیے اس کے درآمدات ہمہ وقت جاری رہتی ہیں۔ اس بے اعتبار سرزمین کا سب سے بڑا اعتبار اس کے باسی ہیں۔ درحقیقت جاپان کے مقدر کے ستارے ہیں، جو دنیا بھر میں چمک بکھیر رہے ہیں۔ عام جاپانی ورکر جنوں اور دیووں جیسی توانائی کا مالک ہے ۔یہ فرانس اور جرمنی کے ورکروں سے 2 ہزار گھنٹے سالانہ زیادہ کام کرتا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں کام کرنے والوں کی نسبت یہ 15 سو گھنٹے سالانہ زیادہ اپنے کاموں میں مشغول رہتا ہے۔ جاپانی ڈاکٹروں کی کونسل نے سالانہ بنیادوں پر ان کو کام کم کرنے کی تجاویز دی ہیں۔ جاپانی حکومتوں نے ان تمام سفارشات کو ہو بہو لاگو بھی کر دیا ہے۔ اس کے باوجود ایک عام جاپانی کارکن ان ساری کی ساری حدود قیود سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ وہ اپنے کام میں غیر معمولی یکسوئی اور محنت دکھاتا ہے۔ یوں ان جاپانیوں نے اپنے ملک کو دنیا کی تین سب سے بڑی معیشتوں میں شامل کروا لیا ہے۔ جاپانی لیڈر شپ نے معجزے کر دکھائے ہیں۔ 
    ’’چی ناکین‘‘ نے اپنی کتاب میں ’’کیروشی‘‘ (Karoshi) نامی ایک اصطلاح متعارف کروائی ہے۔ یہ زیادہ کام کرنے سے واقع ہونے والی موت کی علامت ہے۔ جاپانی لیبر منسٹری ہر ٹرم کے خاتمے پر ہر کارکن کو ایک مہینے کی چھٹی بمعہ تنخواہ دیتی ہے۔ 89 فیصد جاپانی اس دل کش پیش کش سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ وہ اپنی قوم کی دنیا کی سب سے زیادہ محنتی اور جفاکش قوم بنانے کے لیے مسلسل معروف رہتے ہیں۔ کیروشی ہونے والے ورکروں کے لواحقین کو جاپانی حکومت خاصا معاوضہ دیتی ہے۔ 61 فیصد جاپانی یہ کلیم سرے سے داخل ہی نہیں کرواتے۔ 42 فیصد جاپانی بیماری کی حالت میں بھی اپنے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔جاپان میں سالانہ اوسطاً 98 زلزلے آتے ہیں۔ عموماً ان کی رینج کم ہوتی ہے۔ سارا ملک پیہم لرزتا رہتا ہے۔دن میں ایک دوبارہ جاپان جھٹکے کھاتاہے۔ اس کے باوجود جاپانی اپنے کام کاج میں معروف رہتے ہیں۔ ان کے پاس ہمہ وقت چند دنوں کی خوراک ،پانی ،ایک ٹارچ ،ریڈیو، موبائل اور فرسٹ ایڈ کا بکس رہتا ہے۔ وہ کسی بھی ناگہانی صورت حال کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ جاپان ہر عشرے میں دو تین بار سمندر میں شدید زلزلے آنے کے بعد سیلابوں کی زد میں آجاتا ہے۔ جاپانی ایسے نازک وقت میں بھی امداد کے لیے دنیا میں ہاتھ نہیںپھیلاتے۔ وہ اپنے کام کا دورانیہ بڑھا دیتے ہیں۔ ہفتوں میں ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ 
    جاپان نے 1945ء کے بعد کے ان ستر برسوں میں 15 ایسے خوفناک سیلابوں کا سامنا کیا ہے۔ 27 بار بھاری زلزلوں نے ملک کو تلچھٹ کردیا ہے۔ اگر ہم صرف 21 ویں صدی کے زلزلوں اور سیلابوں کی فیگرزدیکھیں تو 21 جون 2003ء کو جاپان میں زلزلے اور سیلاب میں 12,000 افراد جاں بحق ہوئے۔ 16 اگست 2005ء کو 7331 افراد، 20 مارچ2006ء کو 6551، 15 نومبر2006ء کو 2221، 25 مارچ2007ء کو 3742، 14 جون2008ء کو 1843ئ، 9 اگست 2009ء کو 873 افراد ہلاک ہوگئے۔ کھربوں ین کا نقصان ہوا۔ شہروں کے شہر جڑوں سے اُکھڑ گئے۔ 11 مارچ 2011ء یہاں سمندری زلزلے کے بعد خوفناک سونامی آیا۔ 128 فٹ تک بلند لہریں اُٹھیں، انہوں نے تمام ساحلی شہروں کو غرق کر کے رکھ دیا۔ 3 لاکھ افراد ان سے شدید طور پر متاثر ہوئے۔ شہروں اور دیہات میں عارضی پناہ گاہیں بنائی گئیں۔ ان پچھلے ساڑھے 3 سالوں میں جاپان میں ایک ہزار سے زائد چھوٹے چھوٹے زلزلے آچکے ہیں۔ جاپانی اسی ارضی آفت سے مغلوب نہیں ہوئے۔ وہ ان عذابوں سے جلد از جلد نکل کر کامیابی کی شاہراہ پر دوبارہ منزلیں مارنے لگے۔ جاپان میں وزیراعظم آئے دن بدلتے رہتے ہیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ پالیسیاں اسی طرح جاری و ساری رہتی ہیں۔ نہ سیلاب قوم کو زیادہ دیر ڈبوے رکھتے ہیں۔ نہ زلزلے جاپانیوں کو دہشت کا اسیر بنائے رکھتے ہیں۔ نہ کیروشی کی وجہ سے کام میں کمی آتی ہے۔ نہ محنت وہمت کا کارواں کہیں زیادہ دیر پڑائو ڈالے رکھتا ہے۔ آج کی دنیا میں جاپان امریکا ،برطانیہ ،فرانس اور جرمنی سے زیادہ مضبوط اکانومی ہے۔ جاپانیوں نے ناممکن کا لفظ اپنی قومی ڈکشنری سے کھرچ کر مٹا دیا ہے۔اس کی جگہ انہوں نے کیروشی جیسا بامعنی اور پرتفسیر لفظ شامل کر دیا ہے۔ ایسی قوم کی ترقی میں نہ امریکا کوئی رکاوٹ ڈال سکتا ہے نہ ارضی و سماوی آفات ان کو پابند سلال کر سکتی ہیں۔ مسلسل کام اور غیر متزلوں عزم جاپانیوں کے شعور کی سب سے بڑی توانیاں ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ ان کی غریب لیڈر شپ انہیںکبھی دھوکہ نہیں دے سکتی۔ 1945ء سے اب تک وژن سے بھرپور لیڈروں کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار ہے جو قانون کی پابند رہی ہے۔ جن کا معیار زندگی عام جاپانی کا معیار زندگی ہے۔ جو ٹیکس دینے میں اولیت دکھاتے ہیں۔ جو ہمہ وقت وطن اور قوم دوست ہیں۔ جو ابھرتے ہوئے سورج کے دیس کو واقعی جگمگاتا اور روشن ملک بناچکے ہیں۔ 
    پاکستان رقبے اور آبادی کے لحاظ سے جاپان بڑا ملک ہے۔ اسے ہیروشیما اور ناگا ساکی جیسے سانحوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہمارے ملک کو خدا نے معدنیات کے خزانوں سے نوازا ہواہے۔ ہم بے شمار شعبوں میں مکمل خودکفیل ہیں۔ ہمارے موسم سازگار اور زمینیں نہایت درجہ زرخیز ہیں۔ ہمارے ہاں قحط ہے تو قحط الرجال کا، ہمیں بدقسمتی سے سو زر ساز رکھنے والے لیڈر نہیں مل پائے۔ ایسے لیڈر جو بکھری ہوئی قوم کی شیرازہ بندی کر سکتے۔ حالیہ بارشوں اور سیلابوں نے اس بڑی کمی کی شدت کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق پنجاب کے 38 اضلاع ان سے شدید طور پرمتاثر ہوئے۔ 2 کروڑ 40 لاکھ افراد ان کی زد میں آگئے۔ 22 لاکھ ایکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔ اب تک 34 ہزار گھر کلی طور پر اور 80 ہزار جزوی طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ 500 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ 5 ہزار 260 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ کرنٹ لگنے سے 140 اموات ہو چکی ہیں۔ 600 دیہات زیر اب آچکے ہیں۔ سندھ میں کچے کا علاقہ ریلوں میں بہہ گیاہے۔سندھ میں 26 لاکھ افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ کیا جارہا ہے۔ ہمارے 43 ڈیم پانی سے لبالب بھرگئے ہیں۔ ہم اسے شعبے میں دنیا بھر میں ہزاروں میل پیچھے ہیں۔ چین میں 9752 ڈیم، امریکا 6531، فرانس میں 4859 اور انڈیا میں 4710 ڈیم ہیں۔ ہمارے لیڈروں نے اپنی بے حسی اور کوتاہ نظری سے اس قوم کو بار بار ڈبویا ہے۔ 
    آپ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف کی بڑی لیڈر شپ پر ایک نظر ڈالیں تو آپ جان جائیں گے کہ یہ اربوں کھربوں پتی لوگ ہیں۔ ان کے لیے اقتدار سرمائے کو کئی گنا بڑھانے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ مسلم لیگ ن کو سب بزنس مینوں کی پارٹی کہتے ہیں۔ کوئی بھی ذی ہوش اسے غریبوں ،مسکینوں اور ناداروں کی پارٹی نہیں کہتا۔ کون نہیں جانتا کہ بھارت سے نہایت سستی سبزیاں درآمدات کرنے اور ان کو 5 گنا مہنگا کر کے بیچنے میں اس پارٹی کی لیڈر شپ کا کتنا مرکزی ہاتھ ہے؟ ملک کی پولٹر ی کی صنعت کا سب سے بڑ ا ٹائی کون انہی لیڈروں کی اولاد میں سے ہے۔ ہماری جمہوریت دراصل لکڑی کے خوشنما پھلوں کی مانند ہے۔ غریب عوام بھوک سے بے حال ہو کر جب انہیں چباتے ہیں تو ان کے دانت ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں، سینٹ کے 90 فیصد سے زائد اراکین چند ہزار روپے ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے۔ ہمارے وزیراعظم، وزرائ، وزائے اعلیٰ اربوں روپے کے مقناطیس ہاتھوں میں لیے گھومتے ہیں۔ یہ مقناطیس ہر کونے کدرے سے سرمائے کو کھینچ کر باہر نکال لیتے ہیں۔ یہاں اقتدار کے کنویں میں جس نے بھی ڈول ڈالا ہے اس نے اپنی نسلوں کی پیاس بجھا لی ہے۔ یہ ظالم حرص ہے کہ ختم ہونے پر ہی نہیں آرہی۔ ملک وی آئی پی کلچر کی مکمل زد میں آیا ہوا ہے۔ عام پاکستانیوں کے ٹیلنٹ اور صلاحیتوں کا لوہا سب دنیا مانتی ہے۔ 
    ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سے نیچے بہت نیچے سرک چکی ہے۔ ہم ہیں کہ عقل و فہم سے عاری تقریروں اور خطابوں کے سیلابوں میں بہے جارہے ہیں۔ اسلام آباد کو مسٹر اور حضرت کے دھرنوں نے ڈبویا ہوا ہے۔ حکومتی لیڈر شپ کسی بلند وژن اور شعور کو تج چکی ہے۔ آج کی اس دنیا میں جہاں ناساز گار حالات میں قومیں مسائل کے گرداب سے نکل کر بلندی کی طرف محو پرواز ہیں۔ ہم بے یقینی کے پانیوں میں ڈولی نائو بنتے جارہے ہیں۔ حکمرانوں کو اس سے کچھ غرض نہیں۔ ان کی فیکٹریوں، دفتروں اور ملوں میں پہیہ پوری شان سے گھولے جارہا ہے۔ اس ٹکسال سے ہمہ وقت موتی بیلنس میں ہرروز اضافہ ہوئے جارہا ہے۔ اولاد سونے اور ہیرے کے چمچے منہ میں لے پیدا ہوئے جارہی ہے۔ علاج بیرون ملک اور پروٹوکول اندرون ملک انجوائے کیا جارہا ہے۔ کاش! ہم جاپان سے سبق سیکھ لیتے۔ کاش! ہم چین سے کوئی جارہا ہے۔ کاش! ہم امداد کی بجائے حریص لیڈروں کے خالی سروں کے لیے تھوڑا سا بھیجہ مانگ لیتے۔


    ____________
    راشد صاحب

      Current date/time is Sun Apr 28, 2024 3:39 am