احمدیہ جسے عرف عام میں قادیانیت بھی کہا جاتا ہے ایک مسیحیہ تحریک ہے جو کہ 1889ء میں مرزا غلام احمد (1835ء تا 1908ء) نے قادیان (گورداسپور) میں قائم کی۔ 1889ء میں قادیان کے اس جاگیردار نے اعلان کیا کہ مرزا کو الہام کے زریعے اپنے پیروکاروں سے بعیت لینے کی اجازت دی گئی ہے ؛ اسکے بعد مرزا نے (1891ء) میں اپنے امام مہدی ہونے کا دعوی کیا اور یہی وہ زمانہ تھا کہ جب اسلامِ راسِخ (orthodox) علماء کی جانب سے مرزا کی عمومی مخالفت سامنے آنا شروع ہوئی۔ شیعہ اور سنی دونوں تفرقے ہی حضرت امام مہدی کے بارے میں نظریات رکھتے ہیں لہٰذا یہ مسیحائی (عہد کا راہنما یا مہدی) ہونے کا دعویٰ مسلمان علماء کے لیئے کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں تھا بلکہ مسئلہ (بطور خاص سنی علماء کے لیئے) اس وقت شدت اختیار کر گیا کہ جب مرزا نے نبوت کا دعویٰ کیا (گو احمدی اس نبوت کو ختم نبوت کی مخصوص تاویل کی مدد سے محمد کی ختم نبوت کی اصطلاح سے انکار نہیں کہتے)[1]۔ مرزا کے عقائد میں اسلام کے ساتھ صوفی ، ہندوستانی اور مغربی عناصر کی آمیزش بھی نمایاں ہے اور مرزا نے اپنے تبلیغی انداز میں عیسائی ، ہندو اورسکھ تبلیغیوں کے طریقۂ کار کو بھی استعمال کیا[2]۔ مرزا کی وفات کے بعد مولانا نورالدین کو خلیفہ منتخب کیا گیا ، 1914ء میں نورالدین کا انتقال ہوا تو پیروکاروں کا اجتماع دو گروہوں میں بٹ گیا جن میں ایک کو احمدیہ مسلم جماعت اور دوسرے کو احمدیہ انجمن اشاعت اسلام تحریک یا لاہوری احمدیہ بھی کہا جاتا ہے۔
تجزیاتی نظریات
انیسویں صدی کے وسط میں جب مسلم دنیا میں یورپی تسلط کے خلاف جذبات بڑھ رہے تھے اور ان ہی جذبات اور رجحانات سے استفادہ اٹھاتے ہوئے اور کسی مسیحا (راہنما) کی شدید طلب کو محسوس کرتے ہوئے مسلم دنیا میں تین اطراف مہدی نمودار ہوئے۔ایران میں علی محمد شیرازی (1819ء تا 1850ء) نمودار ہوا تو سوڈان میں محمد احمد المہدی (1844ء تا 1885ء) اور ادھر ہندوستانمیں مرزا غلام احمد (1853ء تا 1908ء) کا ظہور ہوا[3]؛ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ہندوستانی مسلمان 1857ء کی جنگ آزادی کی پسپائی پر ذہنی طور پر انتشار کا شکار تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور نظریہ جو احمدیہ تحریک کے رجحان (بطور خاص اس میں مسیحیہ تصور) کا بین المذاہب تجزیہ کرنے والے محققین بیان کرتے ہیں وہ ہندوستان میں پائی جانے والی کثیرالمذاہب صورتحال بھی ہے[2]۔ حضرت امام مہدی کے ان دعویداروں اور غیبت صغرٰی سے تسلسل یافتہ دائمی امامت و نبوت کے نظریات کو محققین و تاریخدان نفسیاتی طور پر قبل از اسلام کے مغناطیسیت (magianism) نظریات سے تقابل کر کے بھی دیکھتے ہیں[
تاریختجزیاتی نظریات کے قطعے میں محققین کی جانب سے بیان کردہ صورتحال کی موجودگی میں استعماریت اور عام ملایئت کے خلاف اور (متعدد تجزیہ نگاروں کے بقول) مسلمانوں کی حالت سنوارنے یا اسے جدید تقاضوں سے مطابقت دینے کے خواہشمند علماء (یا افراد) کی ناپیدی خارج از امکان ہے؛ مرزا غلام احمد (قادیانی) کی ابتداء سے بھی کچھ ایسا ہی تاثر ملتا ہے کہ مرزا نے خود کو مسلمانوں کے لیئے ایک سچے مصلح (یا مجتہد) کے طور پر پیش کیا[5]۔ مرزا کے اجداد سولہویں صدی سلطنت مغلیہ (بابر) کے عہد میں وسط ایشیاء سے ہندوستان آکر بسے تھے اور وسیع جائداد رکھتے تھے؛ اس آبائی جائداد کو اٹھارویں صدی میں سکھ مثلداروں نے فتح کر لیا تھا لیکن پھر مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنے آخری ایام میں پانچ گاؤں (بشمول قادیان) غلام احمد کے والد مرتضٰی غلام احمد کو دے دیئے تھے [6]۔ برطانوی راج کے دور میں بھی مرزا غلام احمد کے والد مرزا غلام مرتضٰی حیثیت کے مالک تھے جو انہیں برطانوی حکومت (بطور خاص 1857ء) سے وفاداری کے سبب حاصل تھی۔۔۔۔
[size=40]Rashid Ali Parchaway [/size] | جنرل نکولسن نے غلام قادر (مرزا غلام احمد کے بھائی) کو سند عطا کی کہ 1857ء میں قادیان خاندان نے دیگر تمام اضلاع کی نسبت سب سے زیادہ وفاداری کا اظہار کیا |