Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ


Join the forum, it's quick and easy

Rashid Ali Parchaway

راشید صاحب کے لیے اطلاع ہے کہ آنے والے وقت میں اپ کمپیوٹر کے ماہرین میں شمار ہونگے انشاء اللہ

Rashid Ali Parchaway

Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

Jamal Abad Michni Parchaway.

Keywords

Affiliates


free forum

Forumotion on Facebook Forumotion on Twitter Forumotion on YouTube Forumotion on Google+


    ستاروں کا انجام

    Admin
    Admin
    Admin
    Admin


    Posts : 527
    Join date : 09.10.2014

    ستاروں کا انجام Empty ستاروں کا انجام

    Post by Admin Mon Mar 16, 2015 11:50 am

    فروری 1987 میں 23 اور 24 کی درمیانی شب کینیڈا کا ایان شیلٹن (Ian Shelton) نامی ایک ماہرِ فلکیات چلی (Chile) میں اینڈز کی بلندی پر واقع کمپانا رصدگاہ (Las Campanas Observatory) میں کام کر رہا تھا، اس کا ایک معاون ذرا دیر کو باہر نکلا اور اس نے کاہلی سے آسمان پر نگاہ ڈالی، آسمان سے اپنی شناسائی کے باعث اسے فوراً وہاں کسی تبدیلی کا احساس ہوا، اسے میگیلینی (Large Magellanic Cloud) نامی روشنی کے نیبولائی (Nebulous) دھبے کے کنارے پر ایک ستارہ دکھائی دیا، ستارہ کوئی زیادہ روشن نہیں تھا، بس اتنا ہی جتنے اورین پٹی کے ستارے ہوتے ہیں، اس میں اہم بات یہ تھی کہ گزشتہ شب یہ اس جگہ نہیں تھا.
    معاون نے شیلٹن کی توجہ اس جسم کی طرف مبذول کرائی اور چند گھنٹوں کے اندر اندر یہ اطلاع ساری دنیا میں گشت کر رہی تھی، شیلٹن اور اس کے چلیئن معاون نے سپر نووا دریافت کیا تھا، یہ دوسرا سپر نووا تھا جسے ننگی آنکھ سے دیکھا جاسکتا تھا، اس سے قبل اس طرح کا ایک سپر نووا 1604 میں جوہینز کیپلر (Johannes Kepler) نے دریافت کیا تھا، بہت سے ممالک میں ماہرینِ فلکیات نے اپنے آلات میگیلینی پر مرکوز کردیے، آنے والے مہینوں میں سپر نووا SN 1987A کے رویے کا باریک بینی سے جزئیات کی حد تک مطالعہ کیا جا چکا تھا.
    شیلٹن کی اس ہیجان انگیز دریافت سے چند گھنٹوں قبل ایک اور جگہ کامی اوکا جاپان کی ایک کان (Kamioka zinc mine) کی گہرائیوں میں بھی ایک بہت اہم واقعہ ریکارڈ کیا جارہا تھا، اس مقام پر لمبے عرصے سے ایک تجربہ کیا جارہا تھا جس سے طبیعات دانوں نے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں، اس تجربے کا مقصد مادے کے سب سے بنیادی مشمولات میں سے ایک یعنی پروٹان کے حتمی استحکام کا جائزہ لینا مقصود تھا، 1970 میں سامنے آنے والے عظیم وحدتی نظریات سے یہ پیش گوئی اخذ ہوتی تھی کہ ہوسکتا ہے کہ پروٹان میں عدم استحکام پایا جاتا ہو اور جب وہ انحطاط سے دوچار ہو تو نادر قسم کے ذرات کا ایک یا دوسرا گروہ خارج ہو، اگر نظریاتی طور پر اخذ شدہ یہ نتیجہ تجرباتی سطح پر بھی درست ثابت ہوجاتا تو اس کے اندر کائنات کے انجام کے حوالے سے گہرے اور دور رس مضمرات پنہاں ہوتے، اس پر اگلے باب میں بحث کی جائے گی.
    پروٹان کے انحطاط کا سراغ لگانے کے لیے جاپانی تجربہ کرنے والوں نے ایک ٹینک کو 2000 پونڈ خالص ترین پانی سے بھرا اور اس کے گرد فوٹون کا سراغ لگانے والے انتہائی حساس آلات نصب کردیے، اگر کوئی ذرہ انحطاط کا شکار ہوتا تو نتیجے میں تیز رفتار ذرات جنم لیتے جو پانی میں اپنے سفر کے دوران فوٹون خارج کرتے، پانی کے ٹینک کے گرد آلات ان فوٹون کا سراغ لگانے اور ان ذرات کی نوعیت اور ان کے خصائص کے حساب کتاب میں مدد دیتے، زیرِ زمین جگہ کا انتخاب کائناتی شعاعوں سے بچنے کے لیے کیا گیا تھا، جو بصورتِ دیگر سراغ رساں آلات میں جعلی اور ان چاہے تعاملات کی بھیڑ لگا دیتے.
    22 جنوری کو کامی اوکا میں لگے سراغ رساں گیارہ سیکنڈ میں گیارہ بار چلے، اس دورانئے میں کرہ زمین کی دوسری جانب اوہو کی ایک نمک کی کان میں نصب ایسے ہی آلات میں اسی طرح کی ٹک گیارہ بار ریکارڈ کی گئی، چونکہ بیک وقت انیس پروٹان کی "خوکشی” کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا چنانچہ ان واقعات کی لازماً کوئی اور وضاحت ہونی چاہیے تھی، طبیعات دانوں نے جلد ہی ان واقعات کی وجہ دریافت کر لی، انہیں اپنے سراغ رساں آلات کے ریکارڈ کا بغور مطالعہ کرنے سے پتہ چلا کہ پروٹان جو جانا پہچانا تھا اور تجربہ گاہوں میں برتا بھی جاتا تھا، ان سے نیوٹرینو ٹکرائے تھے، نیوٹرینو تحت ایٹمی ذرات ہیں جنہیں اس کتاب کے آنے والے بیان میں اہم کردار ادا کرنا ہے، چنانچہ مناسب ہوگا کہ ہم یہاں رک کر اس کے بارے میں قدرے تفصیل سے کچھ جان لیں، ان کے وجود کو اصولی اور ریاضیاتی طور پر سب سے پہلے آسٹروی نژاد طبیعات دان وولف کانگ پالی (Wolfgang Pauli) نے 1931 میں بیٹا انحطاط (Beta Decay) نامی مسئلے کے ایک پہلو کے توضیحی عمل کے دوران دریافت کیا تھا، ایک مثالی یا نمائندہ (Typical) بیٹا انحطاط میں ایک نیوٹران کا پروٹان اور الیکٹران میں انحطاط ہوتا ہے، چونکہ الیکٹران بہت ہلکا ہوتا ہے اس لیے خاصی توانائی کے ساتھ نکل بھاگتا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ انحطاط کے ہر واقعہ میں الیکٹران کی توانائی مختلف ہوتی ہے، اور یہ اس توانائی سے کم ہوتی ہے جتنی اسے نیوٹران کے انحطاط سے حاصل ہونا چاہیے، انحطاط کے واقعہ کی توانائی آخر میں شروع کی توانائی سے کم ہوتی ہے، لیکن یہ طبیعات کے بنیادی قانون یعنی کہ قانون بقائے توانائی کی خلاف ورزی ہے، چنانچہ پالی نے تجویز پیش کی کہ کم ہونے والی توانائی کسی غیر مرئی ذرے کو مل جاتی ہے جو اس کی مدد سے فرار ہوجاتا ہے، ان ذرات کے سراغ کی ابتدائی کوششوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اور یہ واضح ہوگیا کہ اگر ایسے ذرات موجود ہیں بھی تو ان کی قوت سرائیت Penetrating ناقابلِ یقین حد تک زیادہ ہے، اگر ان ذرات پر کسی بھی طرح کا برقی چارج ہوتا تو مادہ انہیں فوراً جذب کر لیتا چنانچہ پالی نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ذرات نیوٹرل ہیں اسی وجہ سے انہیں نیوٹرینو (Neutrino) کا نام دیا گیا.
    اگرچہ اس وقت اس ذرے کی نشاندہی نہ کی جاسکی تھی لیکن نظریہ دان اس کے مزید خواص مختلف نظریوں کی مدد سے سامنے لاتے رہے، ان خصوصیات میں سے ایک نیوٹرینو کی کمیت بھی ہے.
    جب تیزی سے حرکت کرنے والے ذرات کا معاملہ آتا ہے تو کمیت کا تصور بڑی نزاکت کا حامل ہوتا ہے، وجہ یہ ہے کہ اس کی کمیت کوئی مستقل مقدار نہیں بلکہ رفتار کے ساتھ بدلتی ہے، مثلاً اگر سکے کے ایک کلو گرام وزنی گیند کو 260,000 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار دے دی جائے تو دورانِ حرکت اس کی کمیت دو کلو ہوجائے گی، فیصلہ کن عامل روشنی کی رفتار ہے، کسی جسم کی رفتار روشنی کی رفتار کے جتنا نزدیک ہوتی چلی جائے گی اس کی کمیت اتنی ہی بڑھتی چلی جائے گی، اس کی کوئی حد نہیں، اب چونکہ کمیت ایک قابلِ تغیر مقدار ہے اس لیے غلط فہمی سے بچنے کے لیے طبیعات دان جب بھی تحت ایٹمی (Sub-Atomic) ذرات کی بات کرتے ہیں تو ان کا اشارہ ان کی مجموعی کمیت کی طرف ہوتا ہے، اگر کسی ذرے کی رفتار روشنی کی رفتار سے قریب تر ہوجائے تو اس کی اصل کمیت اس کی ساکن حالت کی کمیت سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے، بڑے بڑے ذراتی اسراع گروں (Particle Accelerator) میں گردش کرنے والے الیکٹرانوں اور پروٹانوں کی کمیت ان کی ساکن حالت کمیت سے ہزاروں گنا زیادہ ہوتی ہے.
    نیوٹرینو کی ساکن حالت صفر کمیت کی طرف ایک اشارہ اس حقیقت سے بھی ملتا ہے کہ بعض اوقات بیٹا انحطاط میں نکلنے والے الیکٹران پوری دستیاب توانائی سے نکلتے ہیں اور نیوٹرینو کے لیے تقریباً کوئی توانائی نہیں چھوڑی جاتی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نیوٹرینو عملی طور پر بغیر توانائی کے بھی اپنا وجود رکھ سکتا ہے، اب آئن سٹائن کے فارمولے میں توانائی E اور کمیت m متساوی ہیں چنانچہ صفر توانائی کا مطلب صفر کمیت ہوگا، نتیجہ یہ نکلا کہ نیوٹرینو کی کمیت یا تو بہت ہی کم ہے یا پھر ممکن ہے صفر ہو، اگر اس کی کمیت حقیقتاً صفر ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ روشنی کی رفتار سے حرکت کرتا ہے، اتنا بہرحال یقینی ہے کہ اگر اس کی رفتار کی پیمائش کی جائے تو وہ روشنی کی رفتار کے قریب ترین ہوگی.
    ایک اور خاصیت ہے جس کا تعلق ذرے کے گھماؤ سے ہے، نیوٹران، پروٹان اور الیکٹران ہمیشہ گھماؤ (Spin) کی حالت میں پائے جاتے ہیں، گھماؤ کی مقدار متعین ہوتی ہے اور مندرجہ بالا تینوں ذرات میں یہ ایک سی ہے، گھماؤ زاویائی مقدارِ حرکت (Angular Momentum) کی ایک شکل ہے، اور قانون بقائے توانائی کی طرح قانون بقائے زاویائی مقدارِ حرکت بھی ایک بنیادی قانون ہے، جب ایک نیوٹران کا انحطاط ہوتا ہے تو اس کے زاویائی انحطاط کی بقاء بھی ہونا ہوتی ہے، اب اگر اس انحطاط سے پیدا ہونے والے الیکٹران اور پروٹان کا گھماؤ ایک ہی سمت میں ہے تو دونوں گھماؤ جمع ہوجائیں گے اور حاصل گھماؤ نیوٹران کے گھماؤ سے دو گنا ہوجائے گا، دوسری جانب اگر نیوٹران کے گھماؤ ایک دوسرے سے الٹ سمتوں میں ہیں تو وہ ایک دوسرے کو منسوخ کردیں گے اور حاصل گھماؤ صفر ہوجائے گا، دونوں میں سے کسی بھی صورت میں الیکٹران اور پروٹان کا حاصل گھماؤ نیوٹران کے گھماؤ کے برابر نہیں ہوگا، تاہم اگر نیوٹران کے وجود کو بھی حساب میں لایا جائے اور یہ فرض کر لیا جائے کہ اس کا گھماؤ بھی دونوں ذرات کے گھماؤ کے برابر ہے تو حساب متوازن ہوجاتا ہے، پھر ذیلی پیداوار کے تین ذرات میں سے دو کا گھماؤ ایک سمت میں ہوگا اور تیسرے کا ان کے الٹ سمت میں.
    چنانچہ نیوٹران کا سراغ لگائے بغیر ہی طبیعات دانوں نے استخراج کر لیا تھا کہ اس ذرے کا برقی چارج صفر، حالت سکون، کمیت بہت کم یا صفر، گھماؤ الیکٹران جیسا اور مادے کے ساتھ تعامل اتنا کمزور ہے کہ وہ اس میں سے گزرنے کا کوئی نشان نہیں چھوڑتا، مختصر یہ ہے کہ اسے اپنے گھماؤ کا حامل بھوت کہا جاسکتا ہے، چنانچہ تعجب کی کوئی بات نہیں کہ پالی کے حسابی طور پر دریافت کرنے کے بعد بھی تجربہ گاہ میں اسے یقینی طور پر دریافت کرنے میں تقریباً بیس سال کا عرصہ لگا، نیو کلیئر ری ایکٹر میں یہ اتنی زیادہ مقدار میں پیدا ہوتے ہیں کہ باوجود اتنے ابہام کے مناسب انتظام کے ذریعے ان کا بالواسطہ سراغ لگایا جاسکتا ہے.
    کامی اوکا کان میں نیوٹرینو کے دھارے اور سپر نووا 1987A کا بیک وقت ظہور محض اتفاق خیال نہیں کیا گیا، ان دو واقعات کی مطابقت کو سائنسدانوں نے سپر نووا کے متعلق نظریے کی تصدیق خیال کیا، سائنسدانوں کو لمبے عرصے سے توقع تھی کہ سپر نووا سے نیوٹرینو کے دھارے پھوٹتے ہیں.
    اگرچہ لاطینی لفظ NOVA کا مطلب New یعنی نیا ہے لیکن سپر نووا 1987A کسی نئے ستارے کی پیدائش کی علامت نہیں تھا، دراصل یہ ایک قابلِ دید دھماکے کی صورت میں ایک پرانے ستارے کی موت تھی، میگیلینی بادل جس کے کنارے یہ سپر نووا نمودار ہوا تھا دراصل ہم سے ایک سو ستر ہزار نوری میل دور ایک نسبتاً چھوٹی سی کہکشاں ہے، یہ ہماری کہکشاں سے اتنی نزدیک ہے کہ اسے ہم اپنی کہکشاں کی "سیارہ کہکشاں” کہہ سکتے ہیں، اسے جنوبی نصف کرے میں ننگی آنکھ سے بھی روشنی کے ایک دھندلے سے دھبے کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے، لیکن اس کے علیحدہ علیحدہ ستارے دیکھنے کے لیے خاصی طاقتور دوربین کی ضرورت ہوتی ہے، شیلٹن کی دریافت کے چند گھنٹے بعد ہی آسٹریلیا کے فلکیات دانوں نے بتا دیا تھا کہ اس کہکشاں میں چند کروڑ ستارے پائے جاتے ہیں ان میں سے کون سا پھٹا ہے، انہوں نے یہ کام آسمان کے اس دھبے کی پہلے سے لی گئی تصویر کا جائزہ لے کر کیا، پھٹنے والا ستارہ نیلی Super-giant قسم کا تھا، اس کا قطر سورج کے قطر سے چالیس گنا زیادہ تھا، اس کا نام بھی تھا یعنی سین ڈیولیک Sanduleak -69° 202.
    اس نظریے پر کہ ستارے پھٹ سکتے ہیں، سب سے پہلے اس صدی کی پچاس کی دہائی کے نصف میں فریڈ ہائل (Fred Hoyle)، ولیم فاؤلر (William Fowler)، جیفرے (Geoffrey Burbidge) اور مارگریٹ بربرج (Margaret Burbidge) نے کام کیا، یہ سمجھنے کے لیے کہ کوئی ستارہ اس انجام سے کیسے دوچار ہوتا ہے اس کے اندرونی معاملات سے واقفیت ضروری ہے، سورج وہ ستارہ ہے جس سے ہماری واقفیت باقی سب سے زیادہ ہے، دوسرے تمام ستاروں کی طرح سورج بھی استقرار میں نظر آتا ہے یعنی کہ بظاہر اس میں کوئی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آتی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سورج تباہ کار قوتوں کے خلاف مسلسل جد وجہد میں مصروف ہے، تمام ستارے گیس سے بنے گولے ہیں جن کو قوتِ تجاذب نے اکٹھا کر رکھا ہے، لیکن اگر تجاذب ان پر کارگر واحد قوت رہی ہوتی تو یہ اپنے بے پناہ وزن کے باعث فوراً اندر کی طرف دھماکے سے دوچار ہوتے اور گھنٹوں میں غائب ہوجاتے، لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ستاروں کے اندرون میں بھینچی ہوئی گیس کا بیرونی طرف بے پناہ دباؤ اندر کی جانب عمل کرنے والی قوتِ تجاذب کو متوازن کرتا رہتا ہے.
    گیس کے دباؤ اور اس کے درجہ حرارت میں ایک سادہ سا تعلق ہے، جب گیس کے کسی مقرر حجم کا درجہ حرارت بڑھایا جاتا ہے تو عام طور پر گیس کے دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے جو درجہ حرارت کے ساتھ راست متناسب ہوتا ہے، اور اس کے برعکس جب درجہ حرارت کم کیا جاتا ہے تو دباؤ بھی کم ہوتا ہے، ستارے کے مرکز میں گیس کا دباؤ اس لیے بہت زیادہ ہے کہ اس کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہے، یعنی درجہ حرارت کئی ایک دس لاکھ یعنی کئی ملین ڈگری ہوتا ہے، یہ حرارت نیوکلیائی تعامل سے پیدا ہوتی ہے، کسی ستارے کی زندگی کے زیادہ تر حصے میں جو نیوکلیائی تعامل اسے توانائی مہیا کرتا ہے وہ فیوژن (Fusion) سے ہائیڈروجن کے ہیلئیم میں بدلنے کا عمل ہے، دو نیوکلیئسوں کے درمیان جو رافع برقی قوت پأئی جاتی ہے اس پر قابو پانے کے لیے بہت اونچے درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے، فیوژن سے حاصل ہونے والی حرارت ستارے کی کروڑوں سال تک کفالت کر سکتی ہے لیکن جلد یا بدیر ایندھن ختم ہونے لگتا ہے اور توانائی پیدا کرنے والا ری ایکٹر سست ہوجاتا ہے، تب یہ ہوتا ہے کہ باہر کی جانب عامل گیسوں کے دباؤ سے ملنے والی معاونت مخدوش ہوجاتی ہے اور ستارہ اندر کی جانب عمل کرنے والی قوتِ تجاذب کے خلاف عرصے سے جاری جنگ ہارنے لگتا ہے، اصل میں ستارہ ہمیشہ حیاتِ مستعار پر زندہ ہوتا ہے، وہ اپنے ایندھن کے ذخائر جھونک کر تجاذب سے بچتا رہتا ہے، لیکن اس کی سطح سے خلاء میں بہتا ہر کلو واٹ اس کے خاتمے کو قریب لاتا جاتا ہے.
    حساب لگایا گیا ہے کہ سورج نے ہائیڈروجن کی جس مقدار کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کیا وہ دس کروڑ یا دس ملین سال کے لیے کافی تھی، آج ہمارے اس مقامی ستارے کی عمر پانچ کروڑ سال ہوچکی ہے اور یہ اپنے ذخائر کا نصف خرچ کر چکا ہے (ابھی گھبرانے کی کوئی بات نہیں)، کوئی ستارہ جس شرح کے ساتھ اپنا ایندھن خرچ کرتا ہے اس کا اس کمیت سے گہرا تعلق ہے، وزنی ستارے اپنا ایندھن زیادہ تیزی سے خرچ کرتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ بڑے اور زیادہ روشن ہیں اور زیادہ توانائی خرچ کرتے ہیں، زیادہ کمیت کی وجہ سے مرکز میں موجود گیس پر زیادہ دباؤ پڑتا ہے اور ان کے اندر فیوژن کی رفتار بھی بڑھ جاتی ہے، مثلاً ایک ستارہ جس کی کمیت دس سورجوں کے برابر ہے اپنا ایندھن کوئی دس ملین سال کے اندر خرچ کر ڈالے گا.
    اب آئیں ایسے ایک بھاری ستارے کے مقدر پر غور کریں کہ بالآخر اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے، ابتداء میں زیادہ تر ستارے ہائیڈروجن پر مشتمل ہوتے ہیں، ہائیڈروجن ایندھن کے جلنے کا مطلب اس کے نیوکلیئسوں کا ملاپ ہے، ہائیڈروجن کا نیوکلیئس ایک پروٹان ہوتا ہے، ان کے ملنے سے ہیلئیم کا نیوکلیئس بنتا ہے جو دو پروٹانوں اور دو نیوٹرانوں پر مشتمل ہوتا ہے، تفصیلات قدرے پیچیدہ ہیں اور اس بیان میں غیر ضروری بھی، ہائیڈروجن کا "جلنا” نیوکلیائی توانائی کا سب سے سرگرم سرچشمہ ہے، لیکن یہ توانائی کا واحد ذریعہ نہیں ہے، اگر ستارے کے مرکز کا درجہ حرارت مناسب حد تک زیادہ ہے تو ہیلئیم کے نیوکلیئس باہم پیوست ہوکر کاربن بن جاتے ہیں جو مزید تعاملات سے گزر کر آکسیجن، نیون (Neon) اور دیگر عناصر بن جاتے ہیں، ایک بڑے ستارے کے مرکز میں درجہ حرارت اتنا بلند ضرور ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا نیوکلیائی تعاملات بالترتیب ہوتے چلے جاتے ہیں، لیکن ہر اگلے تعامل سے ملنے والی توانائی کم تر ہوتی چلی جاتی ہے، ایندھن کا جلنا تیز سے تیز تر ہوتا چلا جاتا ہے حتی کہ وہ مرحلہ آجاتا ہے کہ ستارے کے اجزائے ترکیبی پہلے مہینوں میں بدلتے ہیں پھر دنوں میں پھر گنٹوں میں بدلنے لگتے ہیں، اس مرحلے پر ستارے کے اندرون کو پیاز سے تشبیہ دی جاسکتی ہے، اس کی مختلف پرتیں یکے بعد دیگر بننے والے عناصر سے بنی ہوتی ہیں جن کے بننے کی رفتار روز بروز بڑھتی چلی جاتی ہے، بیرون میں ستارے کا حجم بڑھنا شروع ہوجاتا ہے حتی کہ وہ ہمارے پورے نظامِ شمسی جتنا ہوجاتا ہے، اس مرحلے پر ماہرینِ فلکیات اسے سرخ Super-giant کہتے ہیں.
    عنصر لوہا نیوکلیائی آتشیں تماشہ گاہ کے اختتام کی نشانی ہے کیونکہ اس کی نیوکلیائی ساخت خصوصاً خاصی مستحکم ہوتی ہے، لوہے سے وزنی عناصر کی فیوژن سے تشکیل کے لیے درکار توانائی اس عمل سے خارج ہونے والی توانائی سے زیادہ ہوتی ہے اس وجہ سے جب کسی ستارے کا مرکز لوہے کا ہوجاتا ہے تو اسے فناء آجاتی ہے، جب ستارے کا مرکز مزید حرارت پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتا تو پانسہ تجاذب کے حق میں پلٹ جاتا ہے، اس وقت ستارہ ایک تباہ کن عدم استحکام کے کنارے پر جھول رہا ہوتا ہے اور بالآخر اسے اپنے تجاذبی گڑھے میں گر جانا ہے.
    اب جو کچھ ہوتا ہے اور بہت تیزی سے ہوتا ہے، اس کی تفصیل یوں ہے، ستارے کا لوہے کا مرکز جو اب نیوکلیائی تعامل کے ذریعہ حرارت پیدا نہیں کر سکتا، خود اپنا وزن برداشت نہیں کر سکتا اور قوتِ تجاذب کے زیرِ اثر اتنی زور سے سکڑتا ہے کہ اس کے ایٹم بھی کچلے جاتے ہیں، مرکز کی کثافت نیوکلیئس کی کثافت کے قریب پہنچ جاتی ہے، اس لوہے سے بنی ایک انگوٹھی کا وزن ایک ٹریلین ٹن کے قریب ہوگا، اس ستارے کا مرکز اب صرف نیوکلیئسوں سے مل کر بنا ہوا ہے کیونکہ ایٹم بھینچے جاچکے ہیں، اس مرحلے پر ستارے کا مرکز عام طور پر صرف دو کلو میٹر چوڑا ہوتا ہے، جب مرکز میں یہ صورتحال ہوتی ہے تو مرکز کے ارد گرد کا مادہ تیزی سے اس میں گرتا ہے، ٹریلین کے ٹریلین ٹن مادہ بیسیوں ہزار کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سخت مرکزے پر گرتا ہے، اس تصادم سے بے شمار شاک ویو پیدا ہوتی ہیں جو باہر کی جانب ستارے میں سے گزرتی ہیں.
    جب مرکز اپنے ہی تجاذب کی وجہ سے سکڑتا ہے اور ایٹم کچلے جاتے ہیں تو ان کے الیکٹران اور پروٹان مل کر نیوٹران بناتے ہیں اور نیوٹرینو خارج ہوتے ہیں چنانچہ ستارے کا مرکز نیوٹران سے مل کر بنا ایک بہت بڑا گولہ بن جاتا ہے، اس مرکز سے شاک ویو (Shock Wave) اور نیوٹرینو کی آبشار مرکز سے باہر کا رخ کرتی ہے، اس توانائی کو جذب کرتے کرتے ستارے کی بیرونی تہہ ایک نیوکلیائی دھماکے سے پھٹ جاتی ہے، چند روز تک ستارہ لاکھوں سورجوں کے برابر روشنی دیتا نظر آتا ہے اور آخر کار بجھ کر منظر سے غائب ہوجاتا ہے.
    ہمارے جیسی ایک عام کہکشاں میں یہ سپر نووا واقعہ ایک صدی میں اوسطاً دو سے تین بار ہوتا ہے، ان میں سے ایک مشہور واقعہ عرب اور چینی ماہرین ریکارڈ پر لائے جو 1054 عیسوی میں مجمع النجوم عقرب میں وقوع پذیر ہوا، وہ پھٹا ہوا ستارہ اس مجمع نجوم میں پھیلے ہوئے بادل کی صورت نظر آتا ہے اور اسے کریب نیبیولا (Crab Nebula) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.
    سپر نووا 1987A کے پھٹنے نے پوری کائنات کو نیوٹرینو کے سیلاب سے نہلا دیا، یہ ششدر کن شدت کی ایک لہر تھی، زمین کے ہر ربع سینٹی میٹر میں سے سینکڑوں ملین نیوٹرینو گزر گئے، حالانکہ دھماکہ زمین سے ایک سو ستر نوری سال کے فاصلے پر ہوا، خوش قسمتی سے اس کے باشندوں کو خبر نہ ہوئی کہ ایک دور دراز کہکشاں سے آنے والے کئی ٹریلین نیوٹرینو ان میں سے گزر رہے ہیں، لیکن کیمی اوکا اور اوہایو کے پروٹان انحطاط سراغ کنندوں نے ان میں سے انیس کو روک لیا، ان آلات کے بغیر یہ ذرات انجانے ہی میں گزر گئے ہوتے جیسا کہ 1054ء میں ہوا تھا.
    درست ہے کہ سپر نووا ستارے کے لیے یہ صورتِ موت کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس کا ایک پہلو اسی ستارے کے لیے حیات افزا بھی ہے، مرکز سے توانائی کا یہ بے پناہ اخراج بیرونی تہوں کو گرم کردیتا ہے اور مختصر وقت کے لیے نیوکلیائی فیوژن کے تعاملات دوبارہ شروع ہوجاتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ یہ تعاملات توانائی خارج کرنے کی بجائے اس کے سوتے خشک کردیتے ہیں، سونا، سکہ اور یورینئیم جیسے لوہے سے وزنی عناصر کی ڈھلائی ستارے کی بھٹی کے اس آخری اور گرم ترین مرحلہ میں ہوتی ہے، یہ عناصر نیوکلیئس سازی کے ابتدائی مراحل میں بننے والے کاربن اور آکسیجن جیسے عناصر کے ساتھ پھٹ کر بیرونی فضاء میں چلے جاتے ہیں اور کائنات کے دوسرے سپر نووں سے نکلنے والے ایسے ہی مادوں کے ساتھ مل جاتے ہیں، آنے والے زمانوں میں ان عناصر کو ستاروں اور سیاروں کی نئی نسلیں سمیٹ کر لے جاتی ہیں، ان عناصر کے بننے اور بکھرے بغیر ہماری زمین جیسے سیاروں کا معرضِ وجود میں آنا ممکن نہیں، حیات افزاء کاربن اور آکسیجن، ہمارے بینکوں کا سونا، ہماری چھتوں کا سکہ اور ہمارے ایٹمی ری ایکٹروں کی یورینئیم کی سلاخیں سب زمیں پر ان ستاروں کی موت کے طفیل موجود ہے جو سورج کے بھی وجود میں آنے سے پہلے ہوچکی تھی، کیسی عجیب بات ہے کہ آج جو عناصر ہمارے جسم کی ترکیب میں شامل ہیں وہ قرنوں پہلے مردہ ہوجانے والے ستاروں کی نیوکلیائی راکھ ہے.
    سپر نووا کسی ستارے کو مکمل طور پر تباہ نہیں کرتا، اگرچہ زیادہ تر مادہ باہر کی طرف بکھر جاتا ہے لیکن دھماکے سے اندر کی طرف گرنے والا مرکز اپنی جگہ موجود رہتا ہے، اس کے مقدر کا فیصلہ ہونے میں بھی دیر نہیں لگتی، اگر تو اس مرکز میں ہمارے سورج جتنا مادہ بھنچا ہوا ہو تو یہ ایک نیوٹران ستارے کی شکل میں موجود رہے گا جس کا حجم ایک چھوٹے شہر جتنا ہوگا، لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ نیوٹران سے بنا یہ ستارہ بہت تیزی سے اپنے گرد گھومنے لگے گا، اس کی رفتار کوئی ایک ہزار چکر فی سیکنڈ ہوگی، یعنی اس کی سطح کی رفتار روشنی کی رفتار کا دس فیصد ہوگی، دراصل ستارہ ابتداء ہی سے گھماؤ میں ہوتا ہے، لیکن جب اندر کی طرف دھماکے سے مادہ اس پر بے پںاہ رفتار سے گرتا ہے تو دراصل یہی رفتار بڑھتے بڑھتے تیز ہونے لگتی ہے، اس کی مثال سکیٹنگ کے اس کھلاڑی کی سی ہے جو گھومتے ہوئے اپنے بازو سکیڑ لیتا ہے اور اس کی گردش تیز ہوجاتی ہے، فلکیات دانوں نے ایسے بہت سے نیوٹران ستاروں کا سراغ لگایا ہے، مثال کے طور پر کریب نیبیولا (Crab Nebula) کے وسط میں جو نیوٹران ستارہ پایا جاتا ہے اس کے گھماؤ کی رفتار 33 چکر فی سیکنڈ ہوچکی ہے، اب اگر اس نیبیولے کے مرکزی حصے کی کمیت زیادہ ہے یعنی کہ متعدد سورجوں کے برابر ہے تو یہ نیوٹران ستارہ اس کی آخری منزل نہیں ہوتا، یہاں قوتِ تجاذب اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ سخت ترین معلوم مادہ، یعنی کہ نیوٹرانوں سے بنا یہ بچا کھچا ستارہ بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا، یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جس پر سپر نووا سے بھی حیران کن اور تباہ کن واقعہ ہوتا ہے، مرکز سکڑنے لگتا ہے اور ایک ملی سیکنڈ یعنی کہ سیکنڈ کے ہزارویں حصے سے بھی کم وقت میں ایک بلیک ہول بنا کر اس میں غائب ہوجاتا ہے.
    چنانچہ ایک وزنی ستارے کے ساتھ بالآخر یہ ہوتا ہے کہ ٹکڑے ہونے کے بعد اس کا جو کچھ بچتا ہے وہ یا تو نیوٹران ستارہ ہوتا ہے یا پھر ایک بلیک ہول، کوئی نہیں جانتا کہ اب تک کتنے ستارے بھنچ چکے ہیں، لیکن اکیلی ہماری کہکشاں ہی میں ستاروں کے اس طرح کے اجسام بیسیوں کے حساب سے ملتے ہیں.
    مجھے بچپن میں خوف ہوتا تھا کہ کہیں سورج پھٹ نہ جائے، تاہم اس کے سپر نووا بننے کا کوئی خطرہ نہیں ہے، یہ اتنا چھوٹا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا، چھوٹے ستاروں کا انجام اتنا پُرہنگام نہیں ہوتا جتنا ان کے بڑے رشتہ داروں کا، پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ایندھن کو اتنی رفتار سے خرچ نہیں کرتے، مثلاً ستاروں کی وہ قسم جنہیں سفید بونے کہتے ہیں، اور وہ ستاروں کی بہ اعتبارِ حجم فہرست میں سب سے نیچے آتے ہیں، ایک ٹریلین سال تک چمک سکتے ہیں، دوسرے یہ کہ ان چھوٹے ستاروں کے مرکز میں اتنا درجہ حرارت پیدا نہیں ہوسکتا کہ لوہے کا مرکز بن سکے جو باعثِ تباہی اچانک اندر کی جانب گرنے والے دھماکے کو شروع کرنے کے لیے ضروری ہے.
    سورج خاصی کم کمیت والے ستاروں کی ایک مثال ہے جو رفتہ رفتہ اپنی ہائیڈروجن کو سطح پر جلا رہا ہے جبکہ اپنے مرکز کو ہیلئیم میں تبدیل کرتا جا رہا ہے، ہیلئیم زیادہ تر اس کے مرکز میں موجود ہے جو نیوکلیائی تعاملات کے اعتبار سے سرگرم عمل نہیں یعنی کہ اس میں نیوکلیائی تعاملات نہیں ہوتے، چنانچہ اس کا مرکز اس حرارت کی پیدائش میں حصہ دار نہیں جو کچل ڈالنے والی قوت تجاذب کی مزاحمت کرتی ہے، چنانچہ کچلے جانے سے بچنے کے لیے سورج کو اپنے نیوکلیائی تعاملات کی سرگرمی سطح پر رکھنا پڑتی ہے تاکہ اسے مطلوب ہائیڈروجن ملتی رہے، اس دوران ہیلئیم سے بنا مرکز سکڑتا رہتا ہے، ان اندرونی تبدیلیوں کی وجہ سے زمانے گزرنے کے ساتھ سورج کی ظاہری حالت میں غیر محسوس تبدیلیاں آتی ہیں، اس کا حجم بڑھ جائے گا، اس کی سطح کا درجہ حرارت کم ہوجائے گا جس سے اس کی رنگت میں سرخی مائل جھلک آجائے گی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اپنے حجم سے تقریباً پانچ گنا زیادہ ہوجائے گا اور ایک سرخ جن ستارہ (Red Giant Star) بن جائے گا، ایسے کئی ستارے آسمانوں میں پہچانے جاسکتے ہیں، Betelgeuse، Aldebaran اور Arcturus اسی صف میں آتے ہیں، سرخ ستارے کی شکل میں آجانا ستارے کے خاتمے کا آغاز ہے.
    اگرچہ سرخ ستارہ نسبتاً ٹھنڈا ہوتا ہے لیکن اس کا بڑا رقبہ اسے بہت بڑی نور افشاں سطح کا حامل بنا دیتا ہے، اسی لیے اس کی مجموعی ضو افشانی Luminosity زیادہ ہوتی ہے، کوئی چار بلین (چار کروڑ) سال بعد نظامِ شمسی کے ستاروں کو مشکلات کا سامنا ہوگا، اس سے بہت پہلے سمندر ابل کر غائب ہوچکے ہوں گے، اور اس کا کرہ ہوائی بھی خلاؤں میں کھو چکا ہوگا، اس سے بھی بہت پہلے زمین بے آباد ہوچکی ہوگی، اپنے پھولنے کے عمل میں سورج زمین تک کے تمام سیاروں کو اپنی آتشیں لپیٹ میں لے لے گا، لیکن زمین پھر بھی اپنے محور پر گھومتی رہے گی، سورج کی آتشیں لپٹیں کثافت میں اتنی لطیف ہوں گی کہ وہ زمین کی حرکت پر کوئی قابلِ ذکر منفی اسراع مرتب نہیں کریں گی، کرہ ہوائی غائب ہوچکا ہوگا اور زمین کے گرد قریب قریب خلاء کی کیفیت ہوگی.
    زمین پر ہمارا وجود سورج جیسے ستاروں کے غیر معمولی استحکام کا نتیجہ ہے جو کروڑوں سال تک بغیر کسی بڑی تبدیلی کے جلتے اور حرارت خارج کرتے رہتے ہیں، یہ عرصہ زندگی کے ارتقاء اور پھیلنے پھولنے کے لیے کافی ہے، لیکن جب سورج جیسے ستاروں کی زندگی کا "سرخ جن” مرحلہ آتا ہے تو یہ استحکام برقرار نہیں رہتا، ایسے ستارے کی زندگی کے اگلے مراحل پیچیدہ بے قاعدہ اور پُرہنگام ہوتے ہیں، ان آخری مراحل میں ان کے روپ اور شکل وشباہت میں اچانک تبدیلیاں آتی ہیں، اپنے بڑھاپے کے ان مراحل میں یہ گیس کے کروی مرغولے خارج کرتے ہیں، یعنی کہ گیس ان کروں کے ہر طرف خارج ہوتی ہے، عین ممکن ہے کہ ستاروں کے مرکز میں موجود ہیلئیم گیس شعلہ فشاں ہو اور کاربن، نائٹروجن اور آکسیجن وجود میں آئے، اس عمل سے جو توانائی وجود میں آئے گی وہ ستارے کو مزید کچھ عرصہ زندہ رکھے گی، اپنا بیرونی غلاف خلاء میں دھماکوں سے اڑا چکنے کے بعد ستارہ مرتا ہے تو باقی صرف مرکزی حصہ رہ جاتا ہے جو کاربن اور آکسیجن سے مرکب ہوتا ہے.
    اس پیچیدہ سرگرمی سے گرزنے کے بعد بہ اعتبار کمیت نچلے اور درمیانے درجے کے ستاروں کا تجاذب کے ہاتھوں پس جانا ناگزیر ہوتا ہے، یہ سکڑاؤ بے رحمانہ طور پر ہوتا ہے اور اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک سورج کا حجم ایک چھوٹے سے سیارے کے برابر نہیں ہوجاتا، اس جسم کو ماہرینِ فلکیات سفید بونے کا نام دیتے ہیں، اپنے اس چھوٹے حجم کی بناء پر سفید بونے بہت مدھم نظر آتے ہیں حالانکہ ان کی سطح کا درجہ حرارت سورج کی سطح کے درجہ حرارت سے بہت زیادہ ہوسکتا ہے، دوربین کے بغیر زمین سے کوئی سفید بونا نظر نہیں آتا.
    ہمارے سورج کو مستقبلِ بعید میں سفید بونا بننا ہے، اس مرحلے کے بعد بھی سورج کئی بلین سال تک گرم رہے گا، اس کا عظیم الشان جثہ اتنا کثیف ہوگا کہ یہ کسی بھی بہترین غیر موصل یا حاجز سے زیادہ بہتر طور پر حرارت کو اپنے اندر روک سکے گا، لیکن چونکہ اس کے اندر نیوکلیائی ری ایکٹر ہمیشہ کے لیے رک چکا ہے اس لیے ایسا کوئی ذریعہ نہیں جو ٹھنڈی فضاء میں آہستہ آہستہ فرار ہوتی حرارت کی تلافی کر سکے، آہستہ یا بہت آہستہ بونا ٹھنڈا ہوتا جائے گا حتی کہ یہ اپنی عظیم کایا کلپ کے نقطہ آغاز پر جا کر کھڑا ہوگا، اس کے بعد یہ غیر معمولی سختی کے حامل قلمی مادے میں بدل جائے گا، پھر یہ مدھم ہوتے ہوتے بالآخر تاریک ہو کر گرد وپیش کے سیاہ منظر کا ایک حصہ بن جائے گا

    ____________

    راشد صاحب

    ستاروں کا انجام Empty

      Current date/time is Fri Apr 19, 2024 10:08 am