شتر مرغ پرندوں میں سب سے بڑا پرندہ ہے۔ اس کا انڈا سب سے بڑا یعنی ڈیڑھ کلو گرام کا ہوتا ہے۔ اس کی آنکھیں بھی دوسرے جانوروں کے مقابلے میں بہت بڑی ہوتی ہیںاور ان کا قطر 50 ملی میٹر تک ہوتا ہے۔ شتر مرغ کے متعلق عجیب و غریب قسم کی باتیں مشہور ہیں مثلاً اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خطرے کے وقت یہ جانور اپنا منہ ریت میں چھپا لیتا ہے، گویا اس طرح خود کو خطرے سے محفوظ کر لیتا ہے۔ حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خطرہ محسوس کر کے شتر مرغ اپنی گردن نیچے جھکا لیتے ہیں اور محتاط انداز سے اردگرد کا جائزہ لیتے رہتے ہیں اور جوں ہی خطرے کو اپنے قریب دیکھتے ہیں تو یہ بھی دوسرے جانوروں کی طرح عمل کرتے ہیں یعنی تیزی سے بھاگنے لگتے ہیں۔ بھاگتے بھاگتے جب تھک جاتے ہیں یا انہیں اپنے گھونسلے اور بچوں کا دفاع کرنا ہوتا ہے تو یہ اپنی طاقتور ٹا نگوں سے دشمن پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔
شتر مرغ اڑ نہیں سکتا ، لیکن اس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ انتہائی تیز رفتاری سے دوڑ سکتا ہے۔ تیز دوڑ نے میں دنیا کا کوئی پرندہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ، یہ ایک گھنٹے میں پچاس میل کا فاصلہ آسانی سے طے کر لیتا ہے۔
پانچ ہزار سال قبل مصر اور میسوپوٹامیا کی تہذیبیں بھی شتر مرغ سے متاثر تھیں ۔ رومی عہد میں المیفی تھیٹر میں Venatio نامی کھیل میں شتر مرغ کو استعمال کیا جاتا تھا۔
شتر مرغ کے پروں اور غذائی ضرورتوں کے لیے ہر دور میں ان کا شکار کیا جاتا رہا ہے۔ بیسویں صدی کے دورانن شتر مرغ کے پر ٹوپیوں اور لباس کی آرائش میں استعمال کئے جاتے تھے۔ 1970ء کے عشرے میں ان کی کھال کے حصول کے لیے انہیں فارموں میں پالا جانے
شتر مرغ اڑ نہیں سکتا ، لیکن اس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ انتہائی تیز رفتاری سے دوڑ سکتا ہے۔ تیز دوڑ نے میں دنیا کا کوئی پرندہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ، یہ ایک گھنٹے میں پچاس میل کا فاصلہ آسانی سے طے کر لیتا ہے۔
پانچ ہزار سال قبل مصر اور میسوپوٹامیا کی تہذیبیں بھی شتر مرغ سے متاثر تھیں ۔ رومی عہد میں المیفی تھیٹر میں Venatio نامی کھیل میں شتر مرغ کو استعمال کیا جاتا تھا۔
شتر مرغ کے پروں اور غذائی ضرورتوں کے لیے ہر دور میں ان کا شکار کیا جاتا رہا ہے۔ بیسویں صدی کے دورانن شتر مرغ کے پر ٹوپیوں اور لباس کی آرائش میں استعمال کئے جاتے تھے۔ 1970ء کے عشرے میں ان کی کھال کے حصول کے لیے انہیں فارموں میں پالا جانے