از قلم :مولانا محمد کلیم اللہ
حق وباطل کے درمیان مناظرہ کی رَوِش پُرانی ہے ۔ حق ہمیشہ غالب رہتا ہے اور باطل مغلوب ۔۔ باطل کو یہ گھمنڈ ہوتا ہے کہ ان کے اعتراضات وشبہات بلکہ وساوس کا کوئی جواب نہیں دے سکتا جبکہ حق کو اللہ تعالیٰ نے وہ قوت دلیل عطا فرماتا ہے جس سے باطل کے اعتراضات اور وساوس دم توڑ جاتے ہیں ۔
لاہور شہر کے قریب ٹھیٹھرایک علاقہ ہے اس میں ایک ملکوکی نامی قصبہ ہے اس میں پچھلے چند دنوں سے دعوت اسلامی کے امیر محترم جناب محمد الیاس عطاری کے ایک تربیت یافتہ جناب محمد ندیم عطاری صاحب تشریف لائے ۔
ہماری معلومات کے مطابق موصوف ندیم عطاری صاحب اپنے مشن کی تبلیغ کے لیے ایک سال لگا رہے تھے اس علاقے میں تشریف لانے کے بعد انہوں نے اپنے سال کا ارادہ ترک فرمایا اور بلال مسجد میں بطور امام مقرر ہوگئے ۔
اس کے بعد انہوں نے اپنے مشن کو مکمل کرنے کے لیے وہی حربے استعمال کیے جن کی ان کو تربیت دی جاتی ہے یعنی اکابر اہل السنت والجماعت دیوبند پر گستاخ رسول کے فتوے صادر فرمانے لگے کہ مولانا اشرف علی تھانوی اپنے ترجمہ قرآن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گناہ گار لکھتے ہیں ۔ دیوبندی تبلیغی لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف مکر کا لفظ منسوب کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
اس کے علاوہ بھی اور بہت کچھ کہتے رہتے ہیں تاکہ اپنے مقتدیوں عقیدت مندوں اور اہل علاقہ کے نوجوانوں کو اہل حق سے باغی بنا سکیں ۔چنانچہ موصوف ندیم عطاری جو خیر سے دنیاوی طور پر کافی تعلیم یافتہ ہیں سنا ہے کہ کسی کالج میں پروفیسر بھی رہے ہیں انہوں نے بھی ملکوکی کی فضا کو مکدر کیا اور نوجوانوں کو پکڑ پکڑ کر یہ کہتے تھے کہ اگر میں اشرف تھاتونی کو گستاخ رسول ثابت نہ کروں تو یہ اینٹ اپنے سر پر ماروں گا ۔
اہل علاقہ کے اہل السنت والجماعت نے جب یہ معاملہ دیکھا تو موصوف سے کہا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ تو موصوف نے برملا فرمایا کہ میں یہ ضرور ثابت کروں گا ۔ سنی حضرات نے اہل حق کے ترجمان مولانا عبدالشکور حقانی امیر اتحاد اہل السنت والجماعت لاہور ڈویژن سے رابطہ کیا اور علاقے کی صورتحال سے آگاہ کیا مولانا حقانی دامت برکاتہم نے اتحاد اہل السنت والجماعت کی پالیسی کے تحت مناظرہ ٹیم کے انچارج مولانا ابو ایوب قادری سے اس بارے میں مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے ؟
مولانا قادری نے کہا اس کے لیے جو آپ مجھے حکم فرمائیں میں کرنے کو تیار ہوں چنانچہ مولانا قادری اپنی گوناگوں مصروفیات کو چھوڑ کر مسلک حقہ اہل السنت والجماعت کے دفاع اور اکابر دیوبند کے دامن کو آلودگی سے بچانے کے لیے فوراً لاہور تشریف لے آئے ۔
یہ مورخہ 23 فروری 2013 بروز ہفتہ کی شام تھی جب مناظر اہل السنت مولانا ابو ایوب قادری ، مولانا محمد ابو بکر ، مولانا محمد بلال جھنگوی ، بھائی محمد رفیق اور راقم السطور ملکوکی کی طرف روانہ ہوئے نماز عصر وہیں جاکر ادا کی اور اس کے بعد اس وقت کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہی چاہی ۔
بتلایا گیا کہ جناب ندیم عطاری صاحب کو بمشکل گھر سے لایا گیا ہے تاکہ وہ آپ سے گفتگو کر سکیں اس پر مولانا قادری دامت برکاتہم نے فرمایا :”ہمیں خوشی ہوگی کہ ادب واحترام اور علم و سنجیدگی کے دائرے میں رہتے ہوئے اس معاملے کو حل کیا جائے ہم تمام اخلاقیات کی پابندی کرتے ہوئے موضوع پر بات چیت کرنے کو تیار ہیں تاکہ اصل حقائق سب کے سامنے آجائیں اور لوگ حق وباطل کی پہچان کر سکیں ۔“
جبکہ دوسری طرف جناب عطاری صاحب پہلے پہل تو کافی جذباتی ہوکر یہ کہہ رہے تھے کہ ”ٹھیک ہے میں بھی بات کرنے کے لیے تیار ہوں اور جو کچھ میں نے کہا تھا اس کو پوری ذمہ داری سے ثابت کروں گا۔“
لیکن بعد میں عطاری صاحب کی سیٹی گم ہوگئی اور وہ میدان مناظرہ سے ایسے غائب ہوگئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔
انہی باتوں باتوں میں نماز مغرب کا وقت آپہنچا ہم نے نماز باجماعت کی ادائیگی کے بعد بوہڑ والی مسجد میں جا پہنچے اور مولانا قادری دامت برکاتہم نے تقریبا ً ایک گھنٹہ پچاس منٹ کے قریب بیان کیا جس میں چند موضوعات کو زیر بحث لائے :
1. حب رسول اور بریلوی علماء
2. لفظ ذنب ) گناہ ( کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کس نے کی ؟
3. اذان سے پہلے صلوۃ وسلام کیوں پڑھا جاتا ہے ؟
4. بریلی مرکز میں اذان سے قبل صلوۃ وسلام ؟
5. قادیانیت کے رد پر اکابر دیوبند کی خدمات
6. مسئلہ ختم نبوت اور مولانا نانوتوی
7. العیاذ باللہ نبی علیہ السلام کو ابو جہل کا بھائی کس نے کہا ؟
اس کے آخر میں سوالات وجوابات کی نشست ہوئی اس میں مولانا قادری دامت برکاتہم نے عوام الناس میں اہل بدعت کی طرف سے پیدا کردہ اور پھیلائے جانے والے شبہات اور وساوس کا علمی اور تحقیقی طرز پر جواب دیا ۔
نماز عشاء کی ادائیگی سے فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے جب ہم تیار ہوگئے بلکہ گاڑی میں بیٹھ گئے تو چند ساتھیوں نے آ کر مولانا قادری دامت برکاتہم سے عرض کیا کہ
”حضرت !وہ …….. ندیم عطاری …..ساتھ والی جگہ پر بیٹھا ہے اور کہتا ہے کہ میں تمہارے مولوی سے بات کرتا ہوں مولانا قادری دامت برکاتہم فرمانے لگے انہوں نے یہ ساری ہنگامہ آرائی کی ہے اور ہمیں چیلنج دیا تھا ہم چیلنج کو قبول کرتے ہوئے یہاں تک آئے ہیں ہم نے عصر سے عشاء تک اس کا انتظار کیا ان کا یہ حق بنتا تھا کہ وہ اس دوران تشریف لاتے لیکن وہ نہیں اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ میں بات کرتا ہوں.!!!! ……….
خیر !ساتھیوں کے پرزور اصرار پر مناظر اہل السنت مولانا قادری دامت برکاتہم گاڑی سے اترے اور کتابوں کو ساتھ لے کر اس جگہ تشریف گئے جہاں پہلے سے عطاری صاحب ”جلوہ افروز“ تھے ۔ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے مولانا قادری نے عطاری صاحب سے پوچھا : کیا آپ نے یہ کہا ہے کہ مولانا تھانوی نے سورۃ فتح کی دوسری آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے گناہ کی نسبت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے ؟
عطاری صاحب نے اثبات میں جواب دیا کہ ہاں میں نے کہا ہے ۔
مولانا قادری نے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا ترجمہ قرآن کھول کر عطاری صاحب کے ہاتھ دیا کہ ہمیں وہ مقام دکھلائیں جہاں حضرت تھانوی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گناہ کی نسبت کی ہے ۔
عطاری صاحب نے نہ صرف یہ کہ دکھلانے سے انکار کر دیا بلکہ قرآن کریم کو لینے سے بھی گریزاں رہے ۔اور اپنا موقف یوں تبدیل کرنے لگے کہ میں نے حضرت تھانوی کا نام نہیں لیا بلکہ میں نے دیوبندی اور تبلیغی کہا تھا ۔
اسی دوران عوام الناس میں سے ایک شخص محمد صفدر جسے ہم نہ جانتے تھے وہ سامنے آیا اور عطاری صاحب کو یاد دلانے لگا کہ حضرت آپ نے مجھے اشرف تھانوی کا نام بتلایا تھا اس پر عطاری صاحب بڑی دیدہ دلیری سے کہنے لگے کہ میں اب بھی یہ کہتا ہوں
مولانا قادری صاحب دامت برکاتہم نے عطاری صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ جناب آپ صرف کہتےکیوں ہیں آپ کو میں نے حضرت تھانوی کا ترجمہ قرآن دیا ہے اس میں سے وہ مقام سب کے سامنے کھول کر دکھائیں تاکہ جھگڑا ختم ہو۔
عطاری صاحب نے آئیں بائیں شائیں کر کے بات کو گول مول کرنے کی کوشش کی لیکن مولانا قادری کی گرفت مزید مضبوط ہوتی گئی ۔
اس کے بعد مناظر اہل السنت مولانا قادری دامت برکاتہم نے مولوی احمد رضا اور ان کے والد مولوی نقی علی خان کی کتب سے حوالہ جات دینا شروع کیےاور کنز الایمان ترجمہ قرآن مولوی احمد رضا خان اور اس پر احمد یار گجراتی کا تفسیری حاشیے سے حوالے نکال نکال کر لوگوں کو دکھلایا کہ دیکھو یہ لوگ تو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گناہ کی نسبت کرتے ہیں ۔ جو الزام یہ حضرت تھانوی پر لگا رہے تھے اسی جرم کے مرتکب ان کے اپنے بریلوی پیشوا ہیں ۔
الزام انہیں دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
بیچارے عطاری صاحب کے تو حاشیہ خیال میں بھی نہ تھا کہ جنہیں میں اپنا بزرگ مانتا ہوں انہوں نے اپنی اپنی کتابوں میں یہ سب کچھ لکھ رکھا ہے جس کو بنیاد بنا کر ہمیں یہ تربیت دی جاتی ہے کہ دیوبندی گستاخ رسول ہیں ۔
قارئین !چند حوالہ جات ہم آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں کہ بریلویوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گناہ کی اور مکر کے لفظ کی نسبت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے ۔
پہلا حوالہ : مولوی سردار احمد فیصل آبادی لکھتے ہیں :
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب نازل ہوئی آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے اگلے پچھلے تمام ”گناہ “ بخش دیے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آیت مجھے روئے زمین سے زیادہ محبوب ہے ۔
التصدیقات لدفع التلبیسات ص 250
دوسرا حوالہ :مولوی احمد رضا خان کے والد گرامی مولوی نقی علی خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
تا معاف کرے اللہ تعالیٰ تیرے اگلے اور پچھلے ”گناہ “
الکلام الاوضح ص 62
تیسرا حوالہ : مولوی عبدالمالک جو اکابر بریلویہ میں سے ہیں وہ لکھتے ہیں :
خدا آپ کے گزشتہ اور آئندہ”گناہ “ بخش دے ۔
شرح کبریت احمر ص 101
چوتھا حوالہ : مولوی غلام رسول رضوی ایک حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے ان کے اگلے اور پچھلے سب ”گناہ “ معاف کر دیے ہیں ۔
شرح مسلم ج 7 ص 342
پانچواں حوالہ : سید محمد امیر خان نیازی سروری لکھتے ہیں :
اے نبی !اپنے ”گناہ “ کی معافی مانگتے رہا کریں ۔
سر الاسرار ص 75
چھٹا حوالہ : مولوی محمد اشرف سیالوی لکھتے ہیں :
تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے خیال میں جتنے ”گناہ “ہیں سابقہ یا آئندہ ان تمام کی مغفرت فرمادے ۔
کوثر الخیرات ص 237
ساتواں حوالہ : مولوی فضل حق خیر آبادی لکھتے ہیں :
اوبندا ایست کہ امر زیدہ است خدائے تعالیٰ مراو را از گناہان ِ پیشین و پسین
ترجمہ از راقم وہ ایسے بندے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف فرما دیے ہیں ۔
شفاعت ِمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ص 321
آٹھواں حوالہ : مولوی عبدالمقتدر بدایونی لکھتے ہیں :
تاکہ خدا تمہارے اگلے پچھلے سب ”گناہ “ بخش دے ۔
تفسیر ابن عباس برحاشیہ ترجمہ شیخ سعدی
نواں حوالہ : مولوی احمد رضا خان بریلوی اپنے والد کی کتاب کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
مغفرت مانگ اپنے ”گناہوں“کی اور سب مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے لیے ۔
فضائل دعا ص 86
اب اس کے بعد چند حوالے اس پر پیش کرتے ہیں کہ بریلویوں کے علماء نے لفظ” مکر“ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے :
1. حدائق بخشش حصہ سوم ص 41 مولوی احمد رضا خان
2. تفسیر نعیمی ؛ مفتی احمد یار خان نعیمی ج 3 ص 263
3. شرح کبریت احمر ؛ مولوی عبدالمالک بریلوی نے پانچ مرتبہ اللہ تعالی کے لیے مکر کا لفظ استعمال کیا ہے ص 135
4. تسکین الجنان ؛ مولوی عبدالرزاق بھترالوی ص 179
5. فیض چشتیائی اور مہر منیر دونوں پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی تصنیفات ہیں ۔ فیض چشتیائی ص 77 ، مہر منیر ص 248
6. موازنہ علم و کرامت ؛پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی ص 15
مولانا قادری دامت برکاتہم کو اللہ تعالیٰ نے حسن صورت کے ساتھ ساتھ ہیبت وجلال سے بھی نوازا ہے مولانا ایک کے بعد دوسرا ، تیسرا ، چوتھا ، پانچواں ۔۔۔۔۔۔ حوالوں پر حوالے دیے جا رہے اور عطاری صاحب صم بکم عمی کی تصویر بنے دیکھ رہے تھے ۔ اس قدر حواس باختہ ہوگئے تھے کہ انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ کیا کہہ رہے ہیں دوران گفتگو عطاری صاحب کے اگر جھوٹ گنتی کر کے بتلائے جائیں تو قارئین حیران ہوجائیں گے کہ ایسے بے علم اور جاہل شخص کو آخر کس نے یہ تربیت دے کر بھیجا ہے کہ وہ اکابر دیوبند کو گستاخ کہے ۔
مولانا قادری دامت برکاتہم کی باطل شکن تقریر سے عوام الناس کے دلوں میں جہاں اکابر دیوبند کا عشق رسالت سے والہانہ تعلق اور ان کی عظمت و عقیدت اتر رہی تھی وہیں پر عطاری صاحب کی” طوطا چشمی“ بھی قابل دید تھی اور ان کے پیشوائوں کی خیانتیں اور جہالتیں بھی سمجھ آرہی تھیں ۔
بات کافی طول پکڑ چکی تھی عطاری صاحب ”میں نہ مانوں“ والے فارمولے پر عمل پیرا تھے بالآخر مولانا قادری دامت برکاتہم نے اُن کا ایک حوالہ پیش کیا جسے سن کر باقی تو سب لوگ استغفار پڑھنے لگے لیکن عطاری صاحب اس کو بھی اپنا دین اور ایمان قرار دے رہے تھے ۔ حوالہ یہ تھا :
”ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہور نبوت سے پہلے برسوں ابو طالب کے گھر کھانا کھایا ہاں بخاری شریف میں ہے کہ حضور )اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (نے نبوت سے پہلے بھی بتوں کے نام کا ذبیحہ کھایا ۔“
کنز الایمان ترجمہ قرآن مولوی احمد رضا خان
اس کو سن کر عطاری صاحب فرمانے لگے کہ یہ بالکل سچ لکھا ہوا ہے ۔ جب معاملہ یہاں تک پہنچا تو عطاری صاحب کے میزبان بھائی موج خان نے موصوف کو تقریباً دھکے کر باہر نکال دیا ۔ مناظرہ کی روداد تو ختم ہوئی ۔
اب اہل علاقہ کہتے ہیں کہ اس دن کے بعد عطاری صاحب مسجد سے باہر نہیں نکلتے ۔ اب کسی کے سامنے حضرات دیوبند کے خلاف زہر نہیں اگلتے ۔ جسے کہتے ہیں ناں کہ سمجھ آگئی ۔ یقین مانیے عطاری صاحب کو بھی ”سمجھ آگئی “۔
شرمندگی کے عالم میں ڈوب کر ندیم عطاری زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ
آپ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے اجداد نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی
اس لیے ہمارے خیال میں یہ قائدین و اراکین دعوت اسلامی کےمیٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ ان کے تربیت یافتگان کو اس طرح کے علمی کاموں سے دور رہنا چاہیے اور بس جھنڈے لہرا کر عشق رسالت کا ڈھونگ رچانا چاہیے اس کے علاوہ یہ بیچارے کسی کام کے نہیں ۔ورنہ اسی ان کے علم کا پنڈار کھل جائے اور جگ ہنسائی ہوگی یہ نہ ہو کہ لوگ انہیں دیکھ کر یہ کہنا شروع کردیں
خدایا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری